اچھی خبریں صرف عدلیہ سے آرہی ہیں، چیف جسٹس


اسلام آباد: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں صرف شور شرابہ ہوتا ہے جبکہ اچھی خبریں صرف عدلیہ سے آرہی ہیں۔

اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معیشت آئی سی یو  سے باہر آئی یا نہیں لیکن صورت حال خراب ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ افغانستان حالت جنگ میں ہے جبکہ ایران کے حوالے سے بھی صورتحال خراب ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نظام انصاف کی بہتری کے لیے ماضی میں توجہ نہیں دی گئی، لوگ کئی سال جیل میں پڑے رہتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دیوانی مقدمے کا سامنے کرنا والا شخص اپنے گھر میں رہتا ہے جبکہ فوجداری مقدمے کا سامنے کرنے والا جیل میں رہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جیل میں قید ملزم کے بیوی بچے ہوتے ہیں جن کا کوئی قصور نہیں ہوتا اور ان کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا معاشرے نے ان بچوں کا سوچا جن کا باپ جیل میں ہوتا ہے؟ چھ ماہ ایک سال یا دو سال قید میں رہنے والے باپ کے بچوں کا کوئی نہیں سوچتا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جیل میں رہنے والے کے اہل خانہ کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہمیں سب سے پہلے فوجداری نظام عدل کو بہتر کرنا ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ٹی وی لگائیں تو پارلیمان میں شور شرابا ہورہا ہوتا ہے اور قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو بولنے نہیں دیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ ہم چینل تبدیل کرکے ورلڈ کپ دیکھتے ہیں پھر اچھی خبر نہیں آتی، اتنی بری خبروں کے بعد بھی میں خوش ہوں کہ معاشرے کے ایک حصے سے اچھی خبریں آ رہی ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم نے فوجداری مقدمات میں التواء کی حوصلہ شکنی کی ہے، مجھے خود ماڈل کورٹس کی کارکردگی پر یقین نہیں آرہا، 48 دنوں میں 5800 مقدمات سنے گئے، یہ معجزے سے کم نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے کسی ادارے سے اچھی خبر نہیں ملتیں، معیشت کی خبریں سن کر مایوسی ہوتی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ای کورٹس کے ذریعے مقدمات سنے پورے ہفتے میں کوئی کیس ملتوی نہیں ہوا، ہر پیشی پر سائلین کو کراچی سے وکیل لانا انتہائی مہنگا پڑتا تھا، سائلین اور وکلاء ای کورٹس کے قیام سے بہت خوش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سے ای کورٹ سسٹم شروع کرنا چاہتا تھا لیکن تکنیکی مسائل کے باعث نہ ہو سکا، جولائی کے آخر تک بلوچستان کے درالحکومت میں میں بھی ای کورٹ سسٹم شروع کر دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں جدید ترین تحقیقی نظام قائم کیا جا رہا ہے جس کی تربیت کے لیے تین سپریم کورٹ ججز اور سات ریسرچرز امریکہ جائیں گے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ملک بھر کے ججز اس سینٹر سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ تمام عدالتی فیصلے مصنوعی ذہانت کے تحت چلنے والے نظام میں درج کیے جائیں گے، اسے سے مقدمہ کے حقائق کے مطابق فیصلے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ نظام ججز کو بتائے گا کہ ماضی میں ان حقائق پر کیا فیصلے ہوئے۔


متعلقہ خبریں