فیس بک کی نئی کرنسی: ایک آزاد، ورچوئل ریاست کے قیام کا آغاز؟

فیس بک کی کرپٹو کرنسی کیا ایک نئی ورچوئل ریاست کا آغاز ہے؟

ہم سب نے مستقبل کا نقشہ کھینچے والی ایسی بہت سی فلمیں اور ٹی وی سیریز دیکھی ہوئی ہیں جن میں دنیا پر کارپوریشنز  کا ایک کارٹل  حکمرانی کر تا ہے۔ یہ طاقتور عفریت  ٹیکنالوجی کے میدان میں غیرمعمولی استعداد کی بدولت دیگر ریاستوں، اداروں اور معاشروں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور انہیں اپنی حکمرانی برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

فیس بک نے اپنی کرپٹوکرنسی کا اعلان کرتے ہوئے اس کی کچھ تفصیلات بیان کی ہیں جن کے مطابق اس نئی کرنسی کا نام لبرا ہو گا اور آغاز میں اس کے پیچھے دنیا کی 28 بڑی کمپنیوں کا اعتماد کام کر رہا ہو گا جو بنیادی طور پر آن لائن کاروبار کرتی ہیں۔ فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اگلے برس جب یہ کرنسی میدان میں آئے گی تو 100 بڑی کمپنیاں اس کا حصہ ہوں گی۔

بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک نے یہ اعلان کر کے ایک آزاد ورچوئل ریاست  کی طرف پہلا قدم رکھ دیا ہے۔ دنیا کی 100 سب سے طاقتور کمپنیاں مل کر جس نئی کرنسی کا آغاز کر رہی ہیں، وہ بٹ کوائن یا اس جیسی کرپٹو کرنسی سے یکسر مختلف ہے۔ ڈیجیٹل شعبے کے کئی ماہرین کی رائے میں فیس بک نے لبرا کی شکل میں دنیا میں رائج مالی نظام کا متبادل پیش کر دیا ہے۔اس کے پاس دو ارب صارفین موجود ہیں جو  بلاجھجھک لبرا کو بطور کرنسی تسلیم کر لیں گے۔ جب دنیا کے دو ارب لوگ کسی کرنسی پر اعتماد شروع کر دیں تو اس کی کامیابی یقینی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لبرا تیزی سے ڈالر اور دیگر روایتی کرنسیوں کی جگہ لینے لگے گی۔

بظاہر یہ خدشات  اندیشہ ہائے دور دراز نظر آتے ہیں لیکن بنظر غائر دیکھا جائے تو انسانی تاریخ میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بننے  والے واقعات کا آغازاسی طرح  خاموشی سے اور چھوٹی سطح پر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ انقلابات زمانہ کا باعث بننے والے رجل عظیم بھی اس بات سے آگاہ نہیں ہوتے کہ ان کے اقدامات کے حتمی نتیجے میں کیا کچھ وقوع پذیر ہو جائے گا اور جسے وہ  وقت کی صراحی سے قطرہ قطرہ حوادث کا ٹپکنا سمجھ رہے ہیں وہ دراصل ایک سیلاب بلاخیز کی آمد کا اعلان ہے۔

اگر دنیا کی 100 بڑی کمپنیاں مل کر ایک نئی کرنسی متعارف کراتی ہیں اور اسے کامیاب کرا دیتی ہیں تو دنیا کے مالی نظام پر ان کی اجارہ داری کو روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ ضروری نہیں کہ معاملہ 100 کمپنیوں پر ہی رک جائے، اگر طاقت اور اختیار کے اس بے رحم کھیل میں کامیابی کا شائبہ بھی نظر آ جائے تو دیگر بڑے ادارے بھی چھلانگ لگا کر اس نئی کشتی پر سوار ہو جائیں گے۔ اس کے بعد  ریاستوں کے حکمران، ان کی افواج، پولیس اور دیگر تمام ادارے بالواسطہ طور پر ان کے ہی غلام ہوں گے اور جو کچھ ہم فلموں، ڈراموں میں دیکھتے آئے ہیں وہی ہماری نظروں کے سامنے وقوع پذیر ہونے لگے گا۔

کاغذ کا نوٹ قصہ پارینہ ہو جائے گا، جیبوں میں کھنکتے سکے ایک پوری نسل  کے لیے ناسٹیلجیا  کا باعث بن جائیں گے، عیدوں پر کرارے نوٹوں کی تلاش ختم ہو جائے گی اور ہم ہر روز اپنے موبائل پر ڈیجیٹل والٹ کی ایپ چیک کیا کریں گے کہ اس میں دکھائی دینے والی روشنیاں ہماری قدر کا کیا فیصلہ کر رہی ہیں۔

اب تک لوگ کمانے کے لیے کسی نہ کسی طرح اپنی ریاست کے دست نگر ہوا کرتے تھے، اگرچہ یوٹیوب، فری لانسنگ، گوگل ایڈ سنس اور دیگر کئی راستوں سے کارپوریشنز نے ریاستوں کو بائی پاس کرتے ہوئے براہ راست اپنے مزدوروں سے رابطہ قائم کر لیا تھا لیکن اجرت کی  دائیگی کا ذریعہ کرنسی نوٹ ہی ہوا کرتے تھے جس کی وجہ سے ریاست کی دخل اندازی قائم رہتی تھی۔ اب یہ رکاوٹ بھی دور ہو جائےگی  اور نہ صرف عام آدمی براہ راست ان کارپوریشنز کا ملازم اور مزدور ہو گا بلکہ اسے ادائیگی بھی ایسی کرنسی میں ہوا کرے گی جو  کسی ریاست کے مرکزی بینک نے جاری نہیں کی ہو گی بلکہ اس نئی ابھرتی ہوئی طاقت کی اس پر اجارہ داری ہو گی۔

اس کا نتیجہ  یہ نکلے گا کہ لوگ ریاست سے زیادہ کارپوریشنز کے وفادار ہوں گے،  ریاست بے بسی سے محدود سے اختیارات پر راضی ہو جائے گی لیکن یہ معاملہ کبھی نہیں رکے گا اور دھیرے دھیرے ریاست کے کارپرداز اور حکمران طبقہ بھی ان کارپوریشنز کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اپنی طاقت کا بھرم قائم رکھنے پر مجبور ہو جائے گا۔ یہاں ایک بار پھر یہ بات دہرانا ضروری ہے کہ فوری طور پر ایسا کچھ نہیں ہو گا، ایک طویل کشمکش اور کئی دہائیوں کی مزاحمت کے  بعد ہی دنیا کی اس سے ملتی جلتی شکل سامنے آئے گی۔

فیس بک اور دیگر کمپنیوں کی مجبوری یہ ہے کہ انہوں نے اپنے انفراسٹرکچر کے لیے زمین کا کوئی نہ کوئی حصہ ضرورت ہے۔ اس وقت زیادہ تر  بڑی کمپنیوں کا مرکزی نظام امریکہ سے ہی چلایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے امریکی قانون اور نظام انصاف انہیں من مانی نہیں کرنے دیتا ۔ ریاست کے ساتھ ان کی کشمکش جاری رہتی ہے، عدالتیں اربوں ڈالر کے جرمانے بھی کرتی ہیں اور مقننہ مختلف قوانین بنا کر ان کی من مانیوں پر قدغن بھی عائد کرتی رہتی ہے لیکن یہ دھیرے دھیرے اپنا دائرہ پھیلاتی جا رہی ہیں۔ ابھی کئی دہائیوں تک یہ کشمکش جاری رہے گی لیکن اس کا فیصلہ بہرحال ہونا ہے۔

میرا اندازہ ہے کہ  بالآخر ریاستوں کو ان کے سامنے جھکنا پڑے گا یا پھر یہ کمپنیاں کوئی جزیرہ خرید کر وہاں اپنا ساز و سامان منتقل کر دیں گی تاکہ امریکی عدلیہ اور مقننہ کی حدود سے باہر نکل جائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نیا کارٹل ترقی پذیر ممالک میں اپنا مرکزی انفراسٹرکچر منتقل کر دے اور وہاں کے کمزور اور بے بس  اداروں کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے ایک آزاد ورچوئل ریاست قائم کر لے۔

دیکھا جائے تو دنیا میں انقلابی تبدیلیاں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران رونما ہوئی ہیں، الیکٹرانک میڈیا، موبائل فون، انٹرنیٹ ، سوشل میڈیا اور ان جیسے بے شمار مظاہر اس وقت ممکن ہوئے جب انسان نے کمپیوٹر ایجاد کیا، پھر انٹرنیٹ کے ذریعے انہیں آپس میں ملایا اور آخرکار عام آدمی کو اس تک رسائی فراہم کی۔

اس سے قبل انسان نے اپنے مختلف اعضا کی توسیع کے لیے ایجادات بنائیں، کرین کے ذریعے اپنے کمزور بازوؤں کی تلافی کی، دوربین اور خوردبین کے ذریعے اپنی آنکھوں کی رسائی بڑھائی اور ٹیلی فون کے ذریعے اپنی سماعت کے دائرے میں اضافہ کیا۔ کمپیوٹر کی ایجاد اور اس کا عوامی سطح پر پھیلاؤ اس لیے اہم ہے کہ اس کے ذریعے نسل انسانی نے اپنے دماغ کی توسیع کی۔

اس مشینی دماغ کے مقبول ہوتے ہیں پوری دنیا کی شکل ہی تبدیل ہو گئی اور تبدیلی کی یہ رفتار اسقدر تیز ہے کہ ہمارا تخیل ابھی تک اس کا احاطہ نہیں کر پا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بک کے اپنی کرپٹو کرنسی کے اعلان کے ممکنہ نتائج کی سنگینی اور اہمیت کا اندازہ نہیں ہو پا رہا۔  اس  کی اسقدر وسیع جہتیں ہیں کہ تمام تر پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے لیے  “کمپنی کی حکومت” کے عنوان سے کتابوں کی ایک پوری سیریز بھی ناکافی ہوگی۔


متعلقہ خبریں