مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کو بچھڑے 3 برس بیت گئے


مشتاق احمد یوسفی برِصغیر کا وہ نام ہے، جس نے اردو ادب میں اپنے نپے تلے الفاظ  کے ساتھ بھرپور طنز اور مزاح لکھ کر نہ صرف اردو ادب کو بالا مقام عطا کیا بلکہ عام قاری کے ذوقِ مطالعہ اور حسِ مزاح میں بھی بے پناہ اضافہ کیا۔ اردو ادب کے صاحب طرز مزاح نگارکو مداحوں سے بچھڑے تین برس بیت گئے۔

مشتاق احمد یوسفی چارستمبرانیس سواکیس  میں ہندوستان کے صوبے راجھستان میں پیداہوئے۔تقسیم کے بعد کراچی آئے اور بنکنگ کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور کئی بنکوں کے سربراہ بھی رہے۔

مشتاق احمد یوسفی کا شمار اردو کے صف اول کے مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔

مشتاق احمد یوسفی کی  تصانیف میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت،آب گم اور شام شعر یاراں شامل ہیں ۔ مشتاق احمد یوسفی کواردو ادب میں نمایاں کارکردگی پر حکومت پاکستان کی جانب سے انیس سوننانولےمیں  میں ستارۂ امتیازعطا کیا گیا تھا۔

دوہزاردو میں ہلال امتیاز حاصل کرنے والے مشتاق احمد یوسفی کو اکادمی ادبیات پاکستان نے  پاکستان کا سب سے بڑا ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈبھی عطا کیا۔

مشتاق احمد یوسفی 20 جون 2018 کو نمونیا کے مرض میں مبتلا ہونے کے باعث انتقال کر گئے تھے۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے مشتاق احمد یوسفی کے چند اقوال ذیل میں دیے جارہے ہیں:

میرا تعلق تو اس بھولی بھالی نسل سے رہا ہے جو خلوصِ دل سے سمجھتی ہے کہ بچے بزرگوں کی دعا سے پیدا ہوتے ہیں۔

الحمداللہ بھری جوانی میں بھی ہمارا حال اور حلیہ ایسا نہیں رہا کہ کسی خاتون کے ایمان میں خلل واقع ہو۔

اسلام آباد درحقیقت جنت کا نمونہ ہے ۔۔۔ یہاں جو بھی آتا ہے حضرت آدم کی طرح نکالا جاتا ہے۔

کرنل محمد خان سے: ’کرنل صاحب، سفرنامے میں نازنینوں کی تعداد آپ کی ذاتی ضرورت سے کیں زیادہ ہے، آخر بچارے مقامی گوروں کا بھی حقِ بدچلنی بنتا ہے۔‘

پرانا مقدمے باز آدھا وکیل ہوتا ہے اور دائم المرض آدمی پورا عطائی۔

طوطے سے مستقبل کا حال پوچھنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہمیشہ ایک اور نیک فال نکالتا ہے، جس کا سبب یہ کہ دماغ کی بجائے چونچ سے کام لیتا ہے۔

(جنرل ضیا الحق اپنی تقریروں میں) چنگیزی طرزِ ادا سے مزاح کا ناس مار دیتے تھے، کیوں کہ مزاح ان کے مزاح، منصب، مونچھ، سری جیسی ابلواں آنکھوں اور وردی سے لگا نہیں کھاتا تھا۔


متعلقہ خبریں