’بھارت سے مذاکرات کی بحالی کی کوئی امید نہیں‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی خواہش کے باوجود مذاکرات کی بحالی کے لیے بھارت سے مثبت رویے کی توقع نہیں ہے۔

پروگرام ویوز میکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے ائیر مارشل (ر) شاہد لطیف نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے پاکستان کے خلاف نعرے لگا کر انتخابات جیتے ہیں، ان کے آنے سے وہاں نفرت اور انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی خواہش اور پیشکش کے باوجود بھارت سے مذاکرات کے لیے مثبت جواب نہیں آئے گا۔

تجزیہ کار نذیر لغاری نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی تاریخ رہی ہے کہ یہ الیکشن پاکستان مخالف نعروں پر لڑتی ہے لیکن حالات بدلتے ہی مذاکرات کے لیے بھی تیار ہوجاتی ہے۔ جیسے پہلے پرویز مشرف کو گارکل کا ذمہ دار قراردیا اور پھر اسے مذاکرات کے لیے آگرہ بلا لیا۔

تجزیہ کار رضا رومی کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس وقت حالات میں کشیدگی ہے لیکن یہ بیانیہ الیکشن کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہونا شروع ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امن بھارت کی ضرورت ہے اور جب مفاد کی بات ہو تو بھارت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت کسی بھی مسلمان ملک سے بھی اچھے تعلقات سے نہیں کتراتا ہے۔

سینئر تجزیہ کار عامر ضیاء نے کہا کہ پاکستان کے رسمی خط کا بھارت سے رسمی جواب آیا ہے۔ سفارتی معاملات حساس ہوتے ہیں۔ بھارت اس وقت طاقت رکھتا ہے اور اس کی خواہش ہوگی کہ چند سال بعد پاکستان جب مزید کمزور ہو تو تب مذاکرات کے لیے بہتر پوزیشن میں ہوگا۔

تجزیہ کار راجہ عامر عباس نے اس معاملے پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ خطے میں جب تک امن نہیں آئے گا بات آگے نہیں بڑھے گی لیکن یہ بات چیت تب تک شروع نہیں ہوگی جب تک یہ برابری کی سطح پر نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان خطوط سے مذاکرات کی بحالی ممکن نہیں اور پاکستان کی خواہش کے باوجود بھارت مثبت جواب نہیں دے گا۔

حساب کتاب بند کرکے آگے کی بات کی جائے، سابق صدر آصف زرداری کے اس بیان سے متعلق سوال کے جواب میں نذیر لغاری نے کہا کہ آصف زرداری کی بات درست ہے کہ احتساب کے نظام پر کھلواڑ ہوا ہے جس سے ملک کا دنیا میں مذاق بنا ہے اور خزانے میں ایک روپے بھی نہیں آیا ہے۔ نیب خود تنقید کی زد میں ہے اور کی وجہ سے کوئی ملک میں کام کرنے کو تیار نہیں ہے۔

عامر ضیاء کا موقف تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ملک میں پرانا سب کچھ بند کردیا جائے۔ احتساب تحریک انصاف کے منشور کا حصہ ہے وہ اسے نظرانداز نہیں کرسکتی۔ بدعنوانی پر سب کا بلاتفریق احتساب ہونا چاہیے۔

رضا رومی نے کہا کہ یہ تجویز قابل عمل ہے اس پر عمل ہونا چاہیے۔ ماضی میں سالوں کیسز چلتے رہے لیکن پھر وہ اچانک ختم ہوگئے تو اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیں۔ غلط کام پر احتساب ہونا چاہیے لیکن نیب کی وجہ سے بیوروکریسی اور کاروباری طبقہ خوفزدہ ہیں۔

شاہد لطیف نے کہا کہ پاکستان میں سالوں معیشت سے کھلواڑ ہوا جس کی وجہ سے یہاں پہنچے ہیں۔ اگر کسی سے حساب نہیں لیں گے تو آگے کیسے بڑھیں گے۔ سب کو احتساب سے ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ سامنا کرنا چاہیے، کرپشن پر سزاوں سے ملک کا فائدہ ہوگا نقصان نہیں۔

راجہ عامر عباس کا کہنا تھا کہ اگر ماضی کا حساب کتاب بند کرنا ہے تو ملکی عدالتیں بھی بند کرنی ہوں گی کیونکہ اس وقت نوازشریف اور آصف زرداری کے کیسز سپریم کورٹ سے چلے ہیں۔ کیسز بند کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں، ہاں قانون میں پلی بارگین کا راستہ موجود ہے۔

آصف زرداری کی حکومت کو معاہدے کی پیشکش کے حوالے سے نذیر لغاری نے کہا کہ حکومت کو اپوزیشن کی بات کو سمجھنا ہوگا کیونکہ ملکی معیشت کی حالت اچھی نہیں ہے۔ یہ دس ماہ کی پالیسیوں کا نیتجہ تو نہیں لیکن ان ماہ میں معیشت آگے نہیں بڑھی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو معیشت کے معاملات پر ساتھ بیٹھنا چاہیے۔

عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی یہ پیشکش غیرسنجیدگی پر مبنی ہے ورنہ ایسی تجاویز دی جاتیں جو قابل عمل ہوتیں۔ اپوزیشن مقبول تجاویز پیش کرکے عوام میں ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے اور یہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب حکومت مشکل فیصلے کررہی ہے۔

رضا رومی نے کہا کہ اپوزیشن کی پیشکش میں معیشت کم اور سیاست زیادہ ہے۔ ملکی معیشت خوفناک حدتک خراب ہے اور اگر سیاسی تناو رہا تو حالات مزید خراب ہوں گے۔

شاہد لطیف نے کہا کہ عوام اپنے نمائندوں کو پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے بھیجتے ہیں لیکن وہ عوامی مسائل کے بجائے ذاتی مفادات کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔

راجہ عامر عباس کا کہنا تھا کہ کرپشن پر سابق وزیراعظم کو سزا ہوچکی ہے جبکہ سابق صدر پروڈکشن آرڈر پر اسمبلی آرہے ہیں۔ جب ان کی بات ہوگی تو بات ماضی کیطرف بھی جائے گی۔ دس ماہ کی پارلیمنٹ کی دس ماہ کی کارکردگی مایوس کن ہے۔

نوازشریف کی طبی بنیادوں پر جیل سے نکلنے کی امید سے متعلق سوال کے جواب میں راجہ عامر عباس نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے جب نوازشریف کو ریلیف دی تو انہیں وہاں نظرثانی کے لیے نہیں جانا چاہیے تھا۔ نوازشریف کو اب طبی بنیادوں پر ریلیف ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ نوازشریف ہو یا کوئی بھی اسے کسی بھی معاملے میں غیرضروری رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ اگر وہ علاج کرانا چاہتے ہیں ملک میں صحت کی اچھی سہولیات دستیاب ہیں۔

نذیر لغاری نے کہا کہ سپریم کورٹ نوازشریف کو طبی بنیادوں پر ایک بار ریلیف دے چکی ہے لیکن اس دوران انہوں نے اپنا علاج نہیں کرایا۔ اگر انہیں کوئی رکاوٹ تھی تو سپریم کورٹ کو آگاہ کرتے۔ اب دوبارہ اس بنیاد پر ریلیف ملنا مشکل ہے۔

رضا رومی نے کہا کہ اس کیس کا ایک پہلو قانونی ایک اور سیاسی ہے۔ قانونی طور پر انہیں ریلیف ملنا مشکل ہے لیکن پاکستان میں سیاست قانون پر اثرانداز ہوجاتی ہے۔

شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ ملکی سیاست کو قانونی اور ترقیاتی سمیت ہر معاملے سے جوڑ لیا جاتا ہے اور عوام کے سامنے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تین بار وزیراعظم کا مطلب ہے کہ ان پر زیادہ ذمہ داری تھی لیکن اب وہ باہر جانے کی کوشش کررہے ہیں۔


متعلقہ خبریں