بتایا جائے ڈیم کیلئے اکٹھا کیا گیا 10ارب روپیہ کہاں گیا؟ خورشید شاہ



پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی سید خورشید شاہ نے کہاہےکہ ملک میں  ڈیم بنناچاہیے، صرف باتیں نہ کی جائیں ، آج بھی اگرآپ 15فیصدبجٹ ڈیم کے لیے  رکھ لیں ہم ساتھ دیں گے۔آپ نے10ارب کاچندہ  اکٹھا کیا،بتایاجائےکہ یہ رقم کہاں گئی؟

قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ  اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت برے سے برا بجٹ پیش کرے اسے عوام دوست کہتی ہےبجٹ جتنا اچھا ہو، اپوزیشن اسے ہمیشہ مسترد ہی کرتی ہے، یہ روایت رہی ہے۔

سید خورشید شاہ نے کہا کہ بعض اوقات بجٹ ایسے آتے ہیں جن پر بولنا حکومت  اور اپوزیشن ارکان کا فرض بن جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کل ایک سینئیر رکن اسمبلی نے دبے الفاظ میں کچھ باتیں کہیں، درحقیقت اپوزیشن بھی یہی کہتی ہے۔

سید خورشید شاہ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے عوام سے جو وعدے کئے ہیں ان میں ایک فیصد بھی نہیں ہوا،حکومت کی کوشش رہی ہے کہ ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ عوام کی توجہ بجٹ کی طرف نہ ہو۔

خورشید شاہ نے کہا کہ جن حالات میں ہمیں ملک ملا اس وقت ہم عالمی مالیاتی اداروں کے سوا کسی کے پاس نہیں جاسکتے تھے، آج ترقی کی شرح 2فیصد سے بھی کم ہے،مہنگائی کی حالت کسی سے برداشت نہیں ہو رہی ۔

انہوں نے کہا کہ 2013میں ترقی کی شرح 13فیصد تھی،آپ کو تو بنابنایا پاکستان ملا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری مجبوری ہے ہمیں ماضی میں جانا پڑتا ہے ،حکومت نے جو وعدے کیے ان پر ایک فیصد بھی پورا نہیں اتری۔ گالم گلوچ سے سیاست نہیں کی جاسکتی۔

یہ بھی پڑھیے:’ آئین کی حدود پار کیجائے گی تو وفاق کو خطرہ ہو گا’

سید خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن کاحق ہےجوملکی مفادمیں نہیں اس کی مخالفت کرے،حکوت جیسابھی بجٹ پیش کرتی ہےاپوزیشن تسلیم نہیں کرتی، ہماری حکومت نےاین ایف سی ایوارڈکااجراکیا،1952 میں ہماری آبادی ساڑھے 3کروڑ تھی آج 22 کروڑ ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب 2008 میں ہم آئے تو ایک ڈکٹیٹر موجود تھا،اس ڈکٹیٹر کے سامنے کوئی بول نہیں سکتا تھا بے پناہ اختیارات تھے۔ملک کے حالات ایسے تھے کہ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کو شہید کیا جاچکاتھا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد صوبوں میں آگ لگی تھی، نفرت تھی۔

خورشید شاہ نے کہا کہ 2008میں پورے ملک میں دہشت گردی کا راج تھا، سوات سے پاکستان کا جھنڈا اتر چکا تھا،کہا جا رہا تھا طالبان اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔

سابق قائد حزب اختلاف نے کہا کہ اسی طرح 2010 میں سیلاب نے تباہی مچائی، انفراسٹرکچر ختم ہو گیا،اس کے باوجود ہم نے چیخ پکار نہیں کی کہ ماضی کی حکومت میں کیا ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے رونا شروع نہیں کیا کہ ڈالر اور تیل کی قیمت کہاں پہنچ گئی ہے۔ہم نے اس ایوان پر اعتماد رکھا، اسی پارلیمنٹ نے راستہ دیا،ہم گھبرائے نہیں، الزام تراشیاں نہیں کیں ،نوید قمر صاحب آئے انہوں نے کام کیا، حالات کو سنبھال لیا۔

سید خورشید شاہ نے پٹرول بم کے حوالے سے تصویر ایوان میں لہراتے ہوئے حکومت کے حوالے کردی اور کہا کہ ہمارے دور کی پٹرولیم مصنوعات اور موجودہ پٹرولیم مصنوعات کا موازنہ کرلیں۔

خورشید شاہ نے کہا کہ وہ ایک تصویر حکومتی چیف وہپ کو دینا چاہتے ہیں،جب آپ خود وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو تصویر کی صورت میں سامنے آتی ہے،ہم آج باتیں کررہے ہیں، کل ہم ایسا کرینگے تو ہمارے سامنے بھی یہی حقیقت ہوگی۔

خورشید شاہ کی طرف سے لہرائی گئی تصویر پی ٹی آئی کی پٹرولیم مصنوعات کے خلاف بطور اپوزیشن پارٹی احتجاج کی تھی۔ شاہ محمود قریشی اور حکومتی ارکان تصویر دیکھ کر مسکراتے رہے۔

خورشید شاہ کی تقریر کے اختتام پر اس وقت صورتحال دلچسپ ہوگئی جب خورشید شاہ نے وزیراعظم عمران خان کے قوم سے کیے گئے وعدوں کا تذکرہ شروع کیا۔

خورشید شاہ وزیراعظم کے پورے نہ ہونے والے وعدے ایک ایک کر کے پکارتے رہے،پیپلز پارٹی اوراپوزیشن کے دیگرارکان طالب علموں  کی طرح باآواز بلند انکار کا جواب دیتے رہے۔

سید خورشید شاہ کے بعد وزیر مملکت زرتاج گل کو فلور ملا تو انہوں نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومتوں پر شدید تنقید کی ۔

زرتاج گل نے ؔکہا کہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں کسانوں کے لیے کیا کیا گیا؟روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے تو لگائے گئے لیکن عوام کو کیا ملا؟

انہوں نے کہا کہ ستر سالوں سے یہاں جو بجٹ پیش کیا جاتا تھا اس میں سڑکوں اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کے لیے رقم مختص کی جاتی تھی مگر ہماری حکومت نے غریب دوست بجٹ بنایاہے۔

زرتاج نے کہا کہ ہمیں حکومت ملی تو ملک پر تیس ہزار ارب روپے کا قرض تھا۔ انہوں نے اورینج ٹرین اور میٹروبس میں عوامی پیسہ لٹایا۔


متعلقہ خبریں