’حکومت کو حزب اختلاف کی ساتھ چلنے کی پیشکش قبول کرلینی چاہیے‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے حزب اختلاف کی جانب سے حکومت کو ساتھ چلنے کی پیشکش کی جارہی ہے جسے قبول کرلینا چاہیے۔

پروگرام ویوز میکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار رضا رومی نے کہا کہ پارلیمان کو چلانا حکومت کی ذمہ داری ہے، اگر حزب اختلاف اور حکومت مل کر نہیں چلیں گے تو پالیسیوں اور اصلاحات پر کام نہیں ہو پائے گا کیونکہ تناؤ کی کیفیت بہت زیادہ ہے۔

تجزیہ کار منصور علی خان نے کہا کہ حزب اختلاف کی یہ تجویز تحریک انصاف کے لیے قابل قبول نہیں۔ عمران خان نے مفاہمت کی سیاست کی تو ان کے ووٹرز ان سے ناراض ہوجائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت مشکل میں ہے اور حزب اختلاف اس میں مدد نہیں کرے گی۔

تجزیہ کار امجد شعیب نے کہا کہ اب وہ حالات نہیں کہ این آر او ہوسکے۔ حزب اختلاف اور حکومت کا ساتھ چلنا ملکی مفاد ہے۔

تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ پارلیمنٹ کا ماحول اچانک تبدیل ہوگیا ہے، حکومت اور حزب اختلاف  کو مل کر چلنا چاہیے، اس معاملے میں جو بھی گڑ بڑ کرے گا عوام اسے دیکھ لیں گے۔

تجزیہ کار اطہر کاظمی کا کہنا تھا کہ پہلے حزب اختلاف نے دھمکی دی لیکن اب وہ ساتھ چلنے کو تیار ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ دباؤ کچھ کم ہو اور حالات بہتر ہوں۔

وزیراعظم کی ایک بار پھر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے سے متعلق اپیل پر رضا رومی نے کہا کہ ٹیکس کی ادائیگی شہری اور ریاست کا تعلق ہے، حالات نہیں بدلے کہ لوگ ٹیکس دینا شروع کر دیں، اس فرسودہ نظام پر لوگوں کو اعتبار نہیں ہے۔

امجد شعیب نے کہا کہ اگر ملک میں پیسے اکٹھے نہیں ہوں گے تو ملک کیسے چلے گا۔ اگر ٹیکس اکٹھا نہیں ہوتا تو اس پر ان کا احتساب ہونا چاہیے۔

منصور علی خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم بار بار اپیل کرتے ہیں اور یہ اچھی بات ہے۔ اپیل کرنا بری بات نہیں لیکن یہ آسان راستہ ہے۔ مشکل کام یہ ہے آپ اکٹھے کرسکتے ہیں یا نہیں۔ عمران خان اگر یہ کام سب کے ساتھ مل کر کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔

اطہر کاظمی نے کہا کہ عمران خان کا حزب اختلاف  سے متعلق بیانییہ کامیاب رہا ہے۔ ٹیکس کی وصولی کا نظام پیچیدہ ہے۔ لوگوں کو عمران خان پر اعتبار ہے لیکن نظام پر نہیں۔

کامران یوسف کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی پہلی اپیل کے باوجود اب تک صرف چالیس کروڑ روپے اکٹھے ہوئے۔ عمران خان ایمنسٹی اسکیم کی مخالفت کرتے رہے، اتنے تو دوستوں سے بھی انہیں مل جاتے ہیں۔

رضا رومی نے کہا کہ ملکی معیشت قومی بحران سے دوچار ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سب مل کر کام کریں۔ وزیراعظم سب کو ساتھ لے کر چلیں ورنہ اہداف حاصل نہیں ہوں گے۔

امجد شعیب کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو نظرانداز کرنا اچھی روایت نہیں ہے۔ اگر وہاں وزیراعظم نہیں جائے گا تو وزراء بھی نہیں جائیں گے۔ جس ادارے کی جو اہمیت ہے اسے دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

منصور علی خان نے کہا کہ عمران خان حزب اختلاف  میں بھی اسمبلی نہیں آتے تھے لیکن انہیں اسمبلی آنے سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ پارلیمان کا ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ وہاں کوئی اچھی بحث نہیں ہو پارہی۔

اطہر کاظمی نے کہا کہ عوام نے وزیراعظم کو منتخب کیا ہے، وہ ان کی طاقت ہیں۔ حزب اختلاف  اسمبلی کو اپنے مفادات کے لیے حکومت پردباو ڈالنے کے استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

کامران یوسف کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ اسمبلی میں آئیں گے اور جواب دیں گے لیکن ایسا نہیں ہورہا ہے۔ حزب اختلاف  دباو ڈالنے کی کوشش کرے گی لیکن وزیراعظم کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے وزیراعظم کو نوٹس اور اس پر معاون خصوصی کے ردعمل سے متعلق سوال کے جواب میں امجد شعیب نے کہا کہ وزیراعظم بھی غلط قدم اٹھا سکتا ہے، اگر حکومت سمجھتی ہے کہ نوٹس غلط ہوا ہے تو اسے وضاحت دینی چاہیے۔ قانون موجود ہے تو اس کے موجود رہنے تک اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔

رضا رومی نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملات دیکھے۔ اگر نوٹس دیا گیا ہے تو کوئی غلط بات نہیں بلکہ اچھی بات ہے۔ وزیراعظم کو بھی قانون کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔

منصور علی خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا یہ قانون حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا اس لیے ماضی میں بھی اس کی خلاف ورزی ہوئی اور وزیراعظم عمران خان نے بھی ایسا ہی کیا۔

اطہر کاظمی نے کہا کہ یہ نیا پاکستان ہے اور ان حکمرانوں کو یہ باتیں زیب نہیں دیتیں، وزیراعظم کو جواب دینا چاہیے۔ عمران خان اگر سمجھتے ہیں کہ معاملہ غلط ہے تو انہیں وضاحت کردینی چاہیے۔

کامران یوسف کی رائے تھی کہ ماضی میں بھی الیکشن کمیشن نے نوٹس جاری کیے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ وزیراعظم سیاستدان ہیں انہیں عوام سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن حقائق کے مطابق قانون کو تبدیل کرے۔


متعلقہ خبریں