’حزب اختلاف کا حکومت مخالف تحریک پر متفق ہونا مشکل ہے‘

’حزب اختلاف کا حکومت مخالف تحریک پر متفق ہونا مشکل ہے‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی کوششوں کے باوجود حزب اختلاف کی جماعتوں کا حکومت مخالف تحریک چلانے پر متفق ہونا مشکل ہے۔

پروگرام ویوز میکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار رضا رومی نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کی پہلی ترجیح ہے کہ جیل والوں کو آزاد کرائیں۔ مولانا فضل الرحمان حکومت کو گرانا چاہتے ہیں تاکہ وہ کسی طور پر نظام کا حصہ بن سکیں۔ محمود اچکزئی کا بھی یہی مسئلہ ہے۔

تجزیہ کارمشرف زیدی نے کہا کہ اپوزیشن کی تحریک کا کیا مقصد ہوگا، لوگ ان کے لیے سڑکوں پر کیوں نکلیں گے۔ حزب اختلاف کے درمیان کوئی یکساں ایجنڈا نہیں ہے۔ یہ جماعتیں دباو ڈال کر زیادہ سے زیادہ فائدہ لینا چاہتی ہیں۔

سئینر تجزیہ کار عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے اندرتضادات ہیں کہ بڑی جماعتیں نظام کا حصہ ہیں اور وہ نہیں چاہتی کہ یہ نظام ختم ہو۔ حزب اختلاف خود دباو میں ہے اور وہ یہ دباو واپس حکومت پر ڈالنا چاہتے ہیں۔

تجزیہ کار ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ اس تحریک پر ابھی کسی کا اتفاق نہیں ہے۔ اپوزیشن کے پاس تحریک کی بنیاد نہیں ہے یہ چند دنوں میں شور خود ہی ختم ہوجائے گا۔

تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ اپوزیشن کے اندر اعتماد کا فقدان ہے، مولانا فضل الرحمان چاہتے ہیں کہ وہ کسی طرح نظام کا حصہ بنیں جبکہ باقی نظام سے الگ نہیں ہونا چاہتے۔ حکومت کو اس وقت اپوزیشن کی تحریک سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

شہبازشریف اور مریم نواز کے میثاق معیشت سے متعلق مختلف بیانات کے حوالے سے سوال کے جواب میں ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ جس طرح میثاق جمہوریت کو مذاق بنایا گیا، اسی طرح میثاق معیشت کو بھی مذاق معیشت بنادیا گیا ہے۔ یہ حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ چلنے کے لیے اچھا موضوع ہوسکتا تھا لیکن دونوں نے متنازع بنا دیا ہے۔ شریف خاندان پر اس معاملے میں واضح اختلاف ہے جسے چھپانے کی کوشش ہورہی ہے۔

عامر ضیاء نے کہا کہ ملکی معیشت کو بچانے کے لیے اپوزیشن اور حکومت سمیت سب کے درمیان اتفاق رائے ضروری ہے کہ بحران سے کیسے نکلنا ہے۔ مسلم لیگ ن میں اختلاف رائے موجود ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ تقسیم ہوجائے گی، یہ ایک طرح کی ان کی حکمت عملی ہے۔

مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ شریف خاندان میں اختلافات تو پرانی بات ہے نوازشریف اور مریم نواز کی سیاست میں جارحیت اور شہبازشریف کی سیاست مختلف ہے۔ یہ ایک طرح کی پالیسی بھی ہے کہ دونوں قسم کے ووٹرز کو کیسے جوڑے رکھنا ہے۔

امجد شعیب نے کہا کہ مسلم لیگ ن میں اختلاف رائے موجود ہے جو آگے بڑھے گا۔ نوازشریف کی طعبیت میں ایک آمر موجود ہے اس لیے وہ تصادم کی سیاست کرتے ہیں۔

رضا رومی کا کہنا تھا کہ اختلاف رائے موجود ہے، وقت کے ساتھ نوازشریف کا بیانیہ تبدیل ہوا ہے جسے مریم نواز آگے لے کر چل رہی ہیں , شہبازشریف کی سوچ اس کے برعکس ہے لیکن پھر بھی دونوں بھائی الگ نہیں ہوں گے۔

ایک اور سوال کے جواب میں رضا رومی نے کہا کہ اپوزیشن کا کام احتجاج ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ تجاویز دینا بھی ہوتا ہے۔پارلیمانی جمہوریت حکومت اور اپوزیشن سے چلتی ہے لیکن یہاں دونوں کا رویہ ہی غیر سنجیدہ ہے۔ عمران خان ماضی میں یہی کام کرتے رہے اور یہ بھی یہی کررہے ہیں۔

مشرف زیدی نے سوال کے جواب میں رائے دی کہ ہر چیز کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر ڈال دی جاتی ہے۔ جب پارلیمان پر حملے کرکے کوئی وزیراعظم بن جائے گا تو اپوزیشن کی خواہش ہوگی کہ وہ بھی ویسے ہی سیاست کرے۔

عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ ہماری سیاست میں منفیت ہے اس کی ایک تاریخ ہے، اپوزیشن کا کام احتجاج ہوتا ہے لیکن یہ تنقید تعمیری ہونی چاہیے۔ یہاں تنقید عوامی مفاد کے بجائے اپنے مفادات کے لیے ہوتی ہے۔

ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ یہ پارلیمان کا خوفناک ماحول بن گیا کہ اپوزیشن کوئی بات کرتی ہے تو حکومت اس کا اور سخت جواب دیتی ہے۔ اگر دونوں اپوزیشن بن جائیں گے تو حکومت کون کرے گا۔

امجد شعیب کا کہنا تھا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ احتجاج کے معاملے پر تحفظات دورکرے۔ بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کی تنقید ایسی ہے جس میں حکومت سے جو کرنے والے سوال ہیں وہ نہیں کیے جارہے ہیں۔

بھارت اقلیتوں کے لیے محفوظ ملک نہیں رہا پر تبصرے کرتے ہوئے امجد شعیب نے کہا کہ بھارت مسلمانوں سمیت کسی بھی اقلیت کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے، یہ بات دنیا سے اب ڈھکی چھپی نہیں ہے، بھارت میں ابھی جو کچھ ہورہا ہے اس کا نتیجہ مستقبل میں نکلے گا جو خطرناک ہوگا۔

ناصر بیگ چغتائی کا کہنا تھا کہ بھارت کو بچانے کی ہر سطح پر کوشش اس طرح ہوتی ہے کہ بھارت کے حقائق کو دنیا نظرانداز کردیتی ہے۔

عامر ضیاء نے اپنے تجزیے میں کہا کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو آج ہورہا ہے، یہ ہمیشہ ہی ہوتا رہا ہے لیکن نریندر مودی کے آنے کے بعد اقلتیں مزید غیر محفوظ ہوگئی ہیں، اب یہ انتہاپسندی علاقائی امن کے لیے بھی خطرہ بن گئی ہے۔

رضا رومی نے کہا کہ بھارت اقلیتیوں کے لیے غیر محفوظ بن گیا ہے، پہلے ریاستی نظام اس میں رکاوٹ تھا اب وہ اس معاملے میں سہولت کار بن گیا ہے۔


متعلقہ خبریں