قومی اسمبلی، ٹیکس ریونیو میں اضافے کیلئے اصلاحات ضروری ہیں، حماد اظہر


اسلام آباد: وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے کہا ہے کہ اپنی سیاست بچانے کے لیے مسلم لیگ نون نے ملکی معیشت داؤ پر لگا دی جبکہ ٹیکس ریونیو میں اضافے کے لیے اصلاحات ضروری ہیں۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت شروع ہوا۔ وزیر مملکت برائے ریونیو نے بجٹ پر بحث سمیٹی۔

حماد اظہر نے کہا کہ آج ہمارا ادائیگیوں کا توازن گزشتہ سال اگست سے بہتر ہے، قطر نے تین ارب ڈالر امداد کا وعدہ کر رکھا ہے جبکہ اسلامک ڈویلپمنٹ بینک سے بھی امداد کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ حکومتِ پاکستان آئندہ اسٹیٹ بینک سے قرضے نہیں لے گی۔

انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو جنوری سے مستحکم کر دیا گیا جبکہ سالانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی 30 فیصد کمی کر دی گئی ہے۔ ہمیں 9 ارب ڈالر کی امداد دوست ممالک نے دی اور 3 ارب ڈالر قطر دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ استحکام کی پالیسی پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے جو اقدام کیے وہ یہ تھے کہ پہلے 9 ماہ میں پیپلز پارٹی کے دور میں مہنگائی ساڑھے 24 فیصد، مسلم لیگ نون کی 11 فیصد اور ہم نے 9 فیصد کی لیکن ہم مہنگائی کو 5 فیصد پر کرنے کے خواہشمند ہیں، جسے بتدریج کم کرنے کی کوشش کریں گے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ اگر مسلم لیگ نون کی معیشت مستحکم تھی تو پھر سابق وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج کی پیش گوئی کیوں کر گئے تھے۔ آخری بجٹ میں کئی سو ارب کا خسارہ کر گئے اور بجٹ میں ڈیڑھ سو ارب کے ریونیو بھی مزید کم کردیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے جب حکومت سنبھالی تھی تو دو ہفتے سے بھی کم کے بیرونی ذخائر تھے لیکن اب پچھلے ڈیڑھ سال میں پاکستان کے بیرونی ذخائر 19 ارب ڈالر سے کم ہو کر 6 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اب ہم زر مبادلہ کے ذخائر بڑھائیں گے اور تین سے چار فیصد ٹیکس ریونیو کو مزید بڑھائیں گے۔

حماد اظہر نے کہا کہ پھلوں اور سبزیوں پر بھی کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا البتہ درآمد شدہ پھلوں، سبزیوں پر ٹیکس لگایا گیا ہے جو امرا کھاتے ہیں۔ اسی طرح ہم نے آٹے اور گھی پر کوئی اضافی ٹیکس نہیں لگایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں 10 لاکھ افراد کیسے بے روزگار ہوئے ہیں اور حزب اختلاف یہ اعداد و شمار کہاں سے لائے ہیں جبکہ وزیر اعظم ہاؤسنگ پراجیکٹ پر کام جاری ہے جو نجی شعبہ کے ذریعے کیا جا رہا ہے اس سے روزگار کے مواقع کھلے ہیں، اسی طرح احساس پروگرام، غربت مٹاؤ پروگرام لا رہے ہیں جس کے لیے 190 ارب روپے مختص کیے، بجلی کی سبسڈی کے لیے بھی 217 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

چینی کی قیمت میں اضافہ سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ چینی پر ٹیکس لگا کر اسے 17 فیصد کیا گیا جس سے چینی کی قیمت میں ساڑھے تین روپے کلو کا اضافہ ہو گا لیکن 20 روپے فی کلو جو قیمت بڑھی ہے اس کی وجہ سے یہ ٹیکس نہیں ہے۔

وزیر مملکت برائے ریونیو نے کہا کہ تعلیم صوبائی ذمہ داری ہے، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے کرنٹ اخراجات میں 9 فیصد کٹوتی اور سابق ترقیاتی اخراجات میں 35 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح صحت کے لیے 13 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات 98 کروڑ تھے جن کو 32 فیصد کمی کر کے 66 کروڑ پر لایا جا چکا ہے۔

زراعت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبوں کے ساتھ مل کر زراعت کے شعبے میں 280 ارب روپے خرچ کریں گے، کوئٹہ کے لیے 10 ارب اور کراچی کے لیے 45 ارب روپے مختص کیے ہیں، اسی طرح سابق فاٹا میں 10 سال کے دوران صوبوں کے تعاون سے ایک ہزار ارب روپے خرچ کریں گے۔

حماد اظہر نے کہا کہ ہمیں 8 ہزار ارب ٹیکس کی ضرورت ہے لیکن ہم 4 ہزار سے زائد اکٹھا نہیں کر پا رہے اور جب تک ٹیکس کی آمدن کو نہیں بڑھائیں گے اس وقت تک فلاحی کام نہیں کر سکتے۔ حکومت نے کالا دھن پیدا کرنے کے تمام عوامل کو بھی روکنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ ڈیٹا انٹریگریشن گزشتہ 10 سال سے نہیں ہو رہا تھا لیکن ہم نے 10 ماہ میں ساڑھے 5 کروڑ افراد کو انٹریگریٹ کردیا ہے، ہم ایک لاکھ 52 ہزار افراد کا ڈیٹا اکھٹا کر چکے ہیں اور مزید 10 ممالک سے بھی ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ ٹیکس ٹارگٹ 5 ہزار 550 ارب روپے رکھا گیا ہے کیونکہ عام آدمی کو سہولت دینے کیلئے ٹیکس آمدن بڑھانے کی ضرورت ہے اور ٹیکس اضافے کیلئے ایف بی آر میں اصلاحات بھی ضروری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیگریٹ سے حاصل ہونے والا اضافی ٹیکس صحت کے شعبہ پر خرچ کیا جائے گا جبکہ مقامی تیار گاڑیوں پر ایف ای ڈی عائد کی گئی ہے اسی طرح 50 ہزار روپے سے کم کی خریداری پر شناختی کارڈ نمبر دینا ضروری نہیں ہو گا۔ ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے لیے موبائل ایپ بن رہی ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے ارکان کی چھٹی کی درخواستوں کی منظوری کی روایت تبدیل کردی۔

اجلاس شروع ہوا تو اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ ارکان کی بڑی تعداد میں چھٹیوں کی درخواستیں پڑھنا مشکل ہے،ایسا کرتے ہیں کہ صرف نام پکارلیتے ہیں۔

اسپیکر نے ارکان کی چھٹیوں کی مدت بتانے کے بجائے صرف نام پکارنے پر اکتفا کیا۔ کون سا رکن کب تک غیر حاضر ہوگا، ایوان کو آگاہی نہیں دی گئی۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کل مراد سعید نے ایک کتاب کے ذریعے بتایا کہ ہمارے کچھ لیڈر اقتدارِ کیلئے کیسے این آر او مانگتے ہیں۔ سی آئی اے کیجانب سے کچھ پاکستانی لیڈر کے فون ٹیپ کرنے کی اجازت دی گئی، اس کی بھی تحقیق ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ 2008 میں اس وقت کی وزارت خارجہ نے کلبھوشن یادیو کے کیس کو خراب کیا۔ اپنی منی لانڈرنگ سے بچنے کیلئے 2008 اور 2013 اس وقت کی حکومت نے گرے لسٹ سے بچنے کیلئے ممبر شپ اپلائی نہیں کی۔

شیریں مزاری نے کہا کہ لیڈرز جب خود منی لانڈرنگ میں ملوث تھے تو وہ کیسے گرے لسٹ سے بچنے کیلئے ممبر شپ اپلائی کرتے؟

وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا کہ پارلیمان اس ملک کے جمہوری نظام کی ضامن ہے۔ فواد چودھری نے کہا کہ ہم متوسط طبقے کو بجٹ میں جوسہولتیں دینا چاہتے تھے وہ نہیں دے پائے۔

انہوں نے کہا کہ اسکی وجہ یہ ہے کہ 1960تک ہزار روپے قرض تھا اس دوران ہم نے اسلام آباد بنایا ، نیول بیسز بنائیں ڈیم بنائے۔

فواد چودھری نے کہا کہ 2008سے 2018تک 24ہزار ارب روپے قرض لیا گیا۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ پیسے کہاں گئے تو کہا جاتا ہے کہ ’’میں جانوں میرا خدا جانے‘‘۔

فواد چودھری نے کہا کہ میثاق معیشت پر اگر اپوزیشن لیڈر کی جماعت ان کی مدد نہیں کرتی تو وہ ہماری مدد لے لیں۔ فواد چودھری نے کہا کہ میثاق معیشت ملک کے لیے اچھی بات ہے۔

فواد چودھری نے کہا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں ، نیب موجود تھا مگر کچھ ہو نہیں رہاتھا۔ عمران خان کے آنے کے بعد احتساب کا بیانیہ آگے بڑھا اور نیب متحرک ہوا۔

فواد چودھری کے بعد اسپیکر اسد قیصر نے فلور مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کے حوالے کردیا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ میثاق معیشت کے حوالے سے آپ کا پیغام ملا تھا۔ اصولی طور پریہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ ہماری معیشت میں گزشتہ کئی برس سے اتارچڑھاؤآرہاہے ۔

انہوں نے کہا کہ میثاق معیشت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونا چاہیے۔بنگلہ دیش میں بھی اسی طرح ہورہاہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ علی محمد خان آپ کا پیغام لیکر آئے تھے۔ ہم بجٹ کی مخالف کررہے ہیں کیونکہ یہ بجٹ عوام دشمن ہے تاجر دوست بھی نہیں ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ بجٹ پر اتفاق رائے پیدا کرلیں تو بہت بہتر بات ہوگی ۔ اپوزیشن اور حکومتی تجاویز پر اتفاق رائے ہونا چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ ایک میثاق معیشت تمام پارٹیوں میں ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی سے مذاق معیشت کی بات آئی ہے تو یہ حالات کے تناظر میں سامنے آئی ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ بجٹ سے پہلے میثاق معیشت ہوتا تو بہت اچھی بات ہوتی ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف دس برس قبل میثاق معیشت کی بات کرچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم آج بھی میثاق معیشت پر اصولی طور پر قائم ہیں۔

اسپیکراسد قیصر نےاس موقع پر وضاحت کی کہ انہوں نے  میثاق معیشت پر وزیراعظم اور اپوزیشن سے بات کی اور اسکے بعد ٹویٹ کی۔ ہمیں ایسے معاملات کو قومی ایشوز کے طور پر لینا چاہیے۔

خواجہ سعد رفیق نے بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ میثاق معیشت کی بات زور وشور سے ہورہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ میثاق معیشت بات ہوئی ، میثاق معیشت کنپٹی پر پستول رکھ کر نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے میثاق جمہوریت پر عمل کریں۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں جمہوری حکومتوں کے پلے جو کچھ ہوتا ہے ہمیں اچھی طرح پتہ ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ منتخب وزیراعظم کے بس میں این آر او دینا ہوتا ہی نہیں۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جو ہورہاہے وہ آپ سب کے سامنے ہے، آپ بھی نہیں بچیں گے۔ ایم کیو ایم والے بھی نہیں بچے آپ بھی نہیں بچیں گے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 7سال سے نیب کی حراست میں ہوں ، مجھے پتہ ہے کہ مجھے تقریروں کی سزا دی جارہی ہے ۔

سابق وفاقی وزیر ریلوے نے کہا کہ اس بجٹ نے تنخواہ دار طبقے کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس کے افسروں کو جو چھاپوں کا اختیار دیا جارہاہے اس سے کرپشن کا سیلاب آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کے گھروں میں گھسنے کی چھوٹ جو دے رہے ہیں اس سے کرپشن میں اضافہ ہوگا۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آپ 4ہزار جمع نہیں کرسکے 5500کا ٹیکس کیسے جمع کرینگے؟

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن ساڑھے دس ہزار ارب روپے کا قرض لیاہم نے 11ہزار میگاواٹ ،میٹرو بسیں اور موٹرویز دیے ہیں  ،مگر آپ نے دس ماہ میں ساڑھے 5ہزار ارب روپے کے قرضے لے لیں ہیں۔ آپ نے بی آر ٹی کے کھڈوں کے علاوہ کیا دیاہے ملک کو؟

خواجہ سعد رفیق نے دعوی کیا کہ چین سے ایم ایل ون کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا،اگر ایم ایل این پر کوئی معاہدہ ہوا ہو تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے نیب قانون تبدیل نہ کرکے ظلم کیا ۔ نیب ملکی معیشت کو کھوکھلا کررہاہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں رگڑا لگانے کے شوق میں آپ نے بیورو کریسی کو کسی کام کا نہیں چھوڑا،  کوئی افسران کام نہیں کررہے ۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ وزیراعظم ہاؤس میں احتساب سیل بنایا گیاہے ، مسلم لیگ ن نے بھی بنایا تھا جو بالکل بھی درست نہیں تھا۔

سابق وفاقی وزیر ریلوے نے کہا کہ نیب کو گسٹاپو بنادیا گیاہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ یہ کہہ کر کہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا تو وہ ملک نہیں چلا سکے گا۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہم پیپلزپارٹی کو زور لگاکر ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے نہیں کرسکے۔ ضیا کے دس سال میں پیپلزپارٹی نظر نہیں آتی تھی۔ مگر بے نظیر آئیں تو ہر طرف پیپلزپارٹی تھی اور آج بھی پیپلزپارٹی موجود ہے۔

وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے دور میں لگ بھگ ساڑھے 600ارب کے منصوبوں کا اعلان کیا گیامگر نہ بن سکے اگر آج ان منصوبوں کو شروع کریں گے ساڑھے 900ارب درکار ہونگے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے دور میں بھی 30منصوبوں کا اعلان کیا گیا مگر مکمل نہیں ہوسکے۔

فیصل واوڈا نے کہا کہ دونوں حکومتوں کے دور میں لگ بھگ 1700ارب کے منصوبوں کا علان ہوا جو مکمل نہ ہوسکے ۔ اگر یہ منصوبے آج کرنا چاہیں تو لگ بھگ 3ہزار ار ب درکار ہونگے۔

وفاقی وزیر برائے آبی وسائل نے کہا کہ ان منصوبوں میں جو رقم ضائع ہوگئی ہے اس کا حساب لیا جائیگا۔ لوگوں کو خواہ مخواہ نہیں پھنسائیں گے مگر جو لوگ اس میں ملوث ہوئے ان سے حساب لیا جائیگا۔

434 کھرب 77 ارب روپے سے زائد کے لازمی اخراجات منظوری کے لئے ایوان میں پیش کیے جائیں گے۔

حکومت کی جانب سے بجٹ پر عام بحث کو سمیٹا جائے گا۔ملکی قرض کی ادائیگی کے لیے بجٹ میں 391 کھرب روپے کی منظوری لی جائے گی۔

ایوان صدر ،سینیٹ، قومی اسمبلی سمیت مختلف آئینی اداروں کے لازمی اخراجات کی تفصیلات بھی ایوان میں پیش کی جائیں گی۔

واضح رہے کہ پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ )نے 171 بجٹ سفارشات میں سے 154 متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو بھجوا دیں۔

تنخواہ اور پنشن کی مد میں 15% اضافے، گریڈ 16 تک کے ملازمین کی تنخواہ میں 20 فیصد اضافہ اور 6 کی بجائے دس لاکھ روپے تک تنخواہ کو اِنکم ٹیکس سلیب سے مستنثی قرار دینے کی سفارشات بھی شامل ہیں۔

گزشتہ شام سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی زیرصدارت ہوا۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے مالیاتی بل 2019ء پرخزانہ کمیٹی کی سفارشات پیش کیں جنہیں متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا ۔

ایوان بالا میں پیش کی گئیں سفارشات میں گریڈ 17 تک کے وفاقی ملازمین کے لئے 10% فیصد ایڈہاک ریلیف ، گریڈ ایک سے سولہ تک کے ملازمین کے لئے 20% ایڈہاک ریلیف دینے کی سفارش کی گئی ہے ۔

سینیٹ نے نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈیویلپمنٹ (این سی ایچ ڈی) کے ٹیچرز کی تنخواہیں ساڑھے 17 ہزار روپے مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔

اسی طرح ایوان بالا نے سفارش کی ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ( ایچ ای سی) کا بجٹ 70 ارب روپے کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیے:سینیٹ نے 171 بجٹ سفارشات میں سے 154متفقہ طور پر منظور کرلیں


متعلقہ خبریں