’سزا یافتہ شخص کو عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عدالتوں سے سزا یافتہ شخص کو حکومت یا سیاسی جماعت میں عہدہ لینے سے خود ہی گریز کرنا چاہیے۔

پروگرام ویوز میکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار عامر ضیاء نے کہا کہ قانونی پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کیس میں فیصلہ دیا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اخلاقیات زندہ قوموں کے ہوتے ہیں ہمارے ہاں سزا یافتہ شخص کو برا نہیں سمجھا جاتا، ہمارے ہاں پہلے ہی کم لوگوں کو سزا ہوتی ہے کہ طاقتور لوگ اس نظام سے بچ کر نکل جاتے ہیں۔

تجزیہ کار مشرف زیدی نے کہا کہ حکومت اور حزب اختلاف میں ایسے لوگ موجود ہیں جو سزا یافتہ ہونے کے باوجود نظام کا حصہ ہیں۔ یہ نظام کی بدقسمتی ہے کہ معاشرہ سزا کو سزا نہیں سمجھتا۔

تجزیہ کار شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ اخلاقی طور پر سزا یافتہ شخص کو عہدہ نہیں لینا چاہیے، برطانیہ میں ایسے الزامات پر لوگ خود ہی عہدوں سے الگ ہوجاتے ہیں، یہ آئین کا معاملہ نہیں بلکہ اخلاقیات کا تقاضا ہے۔ اداروں کے فیصلوں کو ماننا چاہیے۔

تجزیہ کار ہما بقائی نے کہا کہ ہمارا سیاسی کلچر مختلف ہے کہ اس میں عدالتی نااہلی کے بعد عوامی عدالت کی بات کی جاتی ہے۔ سیاست دان لوگوں کے سامنے اپنی سزا کو انتقام بنا کر پیش کرتے ہیں۔

تجزیہ کار اطہر کاظمی کی رائے تھی کہ  مسلم لیگ ن پر صرف جسٹس قیوم کا اطلاق ہوتا ہے، نوازشریف جہاں ابھی پہنچے ہیں وہ مریم نواز کے ویژن ہی کی وجہ سے ہیں، تحریک انصاف کو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے این آراو نہ دینے کے اعلان سے متعلق سوال کے جواب میں عامر ضیاء نے کہا کہ وزیراعظم کس بات پر لچک کا مظاہرہ کریں، کیا جن افراد پر الزامات ہیں انہیں این آر او دے دیں۔ اب یہ آمریت کی طرح وہ دور نہیں کہ حکومت پورا معاملہ ہی حل کردے، احتساب نظام کے لیے اچھا ہوتا ہے۔

مشرف زیدی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی سیاست کی بنیاد ہی یہی ہے، این آراو کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، احتساب کے معاملے میں بھی حکومت کو یکساں سلوک کرنا چاہیے۔

ہما بقائی کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان اس معاملے پر مؤقف سے ہٹ جائیں تو ان کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ اگر احتساب کی بنیاد انتقام ہوگا تو یہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا۔

اطہر کاظمی نے کہا کہ عمران خان کا مؤقف یہی ہے کہ ہم بدعنوانی کے خلاف ہیں، اب یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ یہ نہ پوچھیں کہ سترسال میں ملک کو کس نے نقصان پہنچایا۔اب جب ججوں اور جرنیلوں کا بھی احتساب ہورہا ہے تو سیاستدانوں کو بھی اس کا سامنا کرتے ہوئے نہیں گھبرانا چاہیے۔

شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ یہ جمہوری حکومت ہے اور کسی کو این آر او نہیں دے سکتی، احتساب کا نظام نہیں رکنا چاہیے تاکہ مستقبل میں ملک کا مزید نقصان نہ ہو۔ حکومت میں تفریق ہے کہ حلیف اور حریف کے لیے الگ الگ معیار ہے۔


متعلقہ خبریں