’ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے پر حکومت کو مداخلت کرنی چاہیے‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ملک میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے پر حکومت کو مداخلت کرکے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

پروگرام ویوز میکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ حکومت کو مداخلت کی فوری ضرورت ہے ورنہ سونا اور اسٹاک مارکیٹ سمیت ہر چیز بے قابو ہوجائے گی جس سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوگی۔

تجزیہ کار اطہرکاظمی نے کہا کہ جس طریقے سے ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے وہ پریشان کن ہے، حکومت افواہوں کو کم از کم روک سکتی تھی، یہ صورتحال معیشت کے لیے اچھی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہر معاملے پر عوام کو اعتماد میں لیتے ہیں اس پر بھی عوام کو اعتماد میں لینا ان کی ذمہ داری ہے۔

سینئر تجزیہ کار عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں غیر یقینی کی صورتحال ہے، حکومت کی خاموشی سے مارکیٹ میں مزید بے چینی پھیل رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک، حکومت کو سامنے آکر کردار کرنا چاہیے۔

تجزیہ کار وحید حسین نے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل ہورہا ہے جس سے ملکی مالیاتی معاملات پر دباو بڑھ رہا ہے۔ حکومت کے پاس عوام کے لیے کوئی وضاحت نہیں ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے معاہدے پر عمل کرنا ہے۔

بریگیڈئیر(ر) غضنفر علی نے کہا کہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوگا جس سے عام آدمی متاثر ہوگا۔ اس سے ہر صعنت متاثر وگی، حکومت کی ذمہ داری ہے وہ اپنے مالیاتی اداروں کے ذریعے مداخلت کرے۔

گیس کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے سوال کے جواب میں ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ حکومت کے لیے اتنے مسائل پیدا ہوگئے ہیں کہ گورننس کا معاملہ ہاتھ سے نکل گیا ہے، حکومتی اقدامات سے عام آدمی متاثر ہورہا ہے، عام آدمی پر بوجھ ڈالنے کا فیصلہ درست نہیں ہے۔

عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ معیشت کے لیے توانائی کا شعبہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔ قیمتوں میں اضافے سے چوری بڑھتی ہے ، حکومت لوگوں کو سانس لینے کا موقع نہیں دے رہی، ایک کے بعد دوسرے شعبے سے ان پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ حکومت کے پاس اس کے علاوہ بھی کوئی راستہ نہیں ہے۔

اطہر کاظمی نے کہا کہ ہماری معیشت کے لیے مسائل انتہائی گھمبیر ہیں، قیمتوں میں اضافہ اچھا نہیں ہے کہ عمران خان پہلے یہی بات کرتے رہے کہ عام آدمی پو بوجھ نہ ڈالا جائے لیکن اب وہ خود یہی کام کررہے ہیں۔

وحید حسین کا کہنا تھا کہ اگر جو پیسہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنے ادوار میں لوٹا ہے، تحریک انصاف نے عوام سے یہ سارے فیصلے پورے کرنے کا فیصلہ کیا ہے، گیس کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی پر بوجھ بڑھے گا۔

غضنفر علی نے کہا کہ ملک میں یہی روایت ہے کہ جو بھی بوجھ ہوتا ہے حکومت عوام پر ڈال دیتی ہے، یہ پریشانی تو عوام برداشت کرلیں گے حکومت کو چاہیے کہ نظام درست کرے تاکہ کل کو مزید بوجھ نہ بڑھے۔

عامر ضیاء نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جو کہتا ہے بیمار ہے اسے قانون کے مطابق سہولیات ملنی چاہیئں، نیب پر الزامات لگانا اچھی بات نہیں ہے۔

ناصر بیگ چغتائی نے تجزیے میں کہا کہ کوئی بیماری انسان خود پر مسلط نہیں کرسکتا ہے، جیل بھی انسان کو بیمار کردیتی ہے، نوازشریف، آصف زرداری کی بیماری کی تاریخ موجود ہے۔

اطہر کاظمی کا کہنا تھا کہ صحت کسی کی بھی خراب ہوسکتی ہے، نیب نے ساری بیماریوں کو اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی اسمبلی کو سب جیل قرار دے دیں تاکہ کسی کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پڑیں۔

وحید حسین نے کہا کہ اس وقت نیب کے اندر اتنی بیماریاں ہیں کہ خود اسے اسپتال منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں سیاسی کیسز کے اثرات ہوتے ہیں۔

غضنفر علی کا کہنا تھا کہ بیماری پیدا کرکے رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں، اگر کوئی شخص بیماری کی شکایت کرتا ہے تو اس پر شفاف طریقے سے میڈیکل بورڈ بننا چاہیے، اصل مسئلہ کرپشن کو جمہوریت کے ساتھ جوڑنا ہے۔

افغان صدر اشرف غنی کے دورے کے حوالے سے غضنفر علی کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر افغان صدر کے دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آنی چاہیے لیکن ماضی کی تاریخ مختلف ہے۔ افغان امن عمل کے پاکستان نے تجاویز دی ہیں کہ امن کے لیے سب کا ساتھ چلنا ضروری ہے۔

اطہر کاظمی نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان اعتماد کی کمی ہے، اشرف غنی کی رٹ صدر ہاوس سے باہر نہیں ہے۔ مذاکرات اچھی بات ہے لیکن انہیں کسی کی حمایت حاصل نہیں ہے۔

عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ اشرف غنی کی رٹ کابل تک بھی کسی کے سہارے موجود ہے، افغان امن عمل اگر آگے بڑھتا ہے تو یہ آگے نظر نہیں آئیں گے۔

ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ پہلی بار افغانستان میں امن کے لیے سنجیدہ کوششیں ہورہی ہیں۔ امریکہ، طالبان کے درمیان بات چیت اچھی چل رہی ہے تاہم اس کی شرائط کو ابھی تک خفیہ رکھا گیا ہے۔

وحید حسین کا کہنا تھا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی خرابی کی ایک تاریخ ہے، افغانستان میں بھارت کی سرمایہ کاری موجود ہے جب مذاکرات آگے بڑھنے لگتے ہیں تو وہاں سے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہوتی ہے۔


متعلقہ خبریں