’ایمنسٹی اسکیم سے حکومت کو خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے‘


اسلام آباد: تجزیہ کار رضا رومی نے کہا ہے کہ ایمنسٹی اسکیم سے اب تک حکومت کو خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے ہیں، وزیراعظم کی طرف سے اپیل سے کچھ نہ کچھ بہتری آجائے گی لیکن حکومت کو صرف ایسی اسکمیوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے لیے ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کرنی چاہئیں۔

پروگرام ویوز میکرز کے دوران میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے رضا رومی نے کہا کہ ملک میں قیمتوں کے حوالے سے پرانا طریقہ رائج ہے۔

انہوں نے کہا کہ طلب اور رسد کے تحت قیمتیں مقرر ہوتی ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ معیشت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس سے قومی سلامتی جڑی ہوئی ہے، اس حکومت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ فوجی اور سول قیادت کا مؤقف ایک ہے۔

رضا رومی کا کہنا تھا کہ کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) سے بہت ساری توقعات وابستہ تھیں جو پوری نہیں ہوئی ہیں۔ حزب اختلاف کا لائحہ عمل مشترکہ نہیں ہے کہ بڑی جماعتیں ابھی سڑکوں پر نہیں آنا چاہتیں۔

تجزیہ کار طارق محمود کے مطابق ایمنسٹی اسکیم سے معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس لیے یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی دس ماہ کی پالیسیوں سے سرمایہ کاروں کا عمران خان پر جو اعتماد تھا اسے دھچکا لگا ہے۔

طارق محمود نے کہا کہ ابھی بجٹ کے اثرات سامنے نہیں آئے ہیں۔ مقامی سطح پر تھوڑی سی ریلیف ممکن ہے لیکن جب بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھیں گی تو مہنگائی نہیں رک سکتی۔

انہوں نے کہا کہ معیشت کی صورت حال کے حوالے سے فوج اور حکومت کا ایک ہی مؤقف ہے۔ ملک کو آگے لے جانا ہے تو میثاق معیشت ضروری ہے لیکن اس کے لیے اچھا سیاسی ماحول ہونا ضروری ہے جو بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

چیئرمین سینیٹ کے معاملے پر بات کرتے ہوئے طارق محمود نے کہا کہ حزب اختلاف کا بس اسی چیز پر چلتا ہے اس لیے انہوں نے یہی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ رضا ربانی کے علاوہ کسی اور نام پر حزب اختلاف کا متفق ہونا مشکل ہے۔

تجزیہ کار امجد شعیب نے کہا کہ حکومت نے جب ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تو کہا کہ ہمارے پاس بہت معلومات ہیں، اب یہ خوف بھی ختم ہوچکا ہے تو حکومت کی بے بسی سے کون ڈرے گا۔

انہوں نے کہا کہ انتظامی معاملات حل کرنے سے کچھ نہ کچھ ریلیف دی جاسکتی ہے لیکن معیشت سے جڑی چیزیں نوٹس لینے سے درست نہیں ہوسکتی ہیں۔

امجد شعیب نے کہا کہ عسکری قیادت کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ملک کے اہم فیصلوں کے لیے سب میں اتفاق ضروری ہے، معیشت قومی سلامتی کے معاملے سے جڑی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حزب اختلاف کے پاس تحریک چلانے کی صلاحیت نہیں ہے، ان کی جانب سے یہ ناکامی کا اعتراف ہے۔ یہ کام تو وہ کسی بھی وقت کرسکتے تھے کہ ان کے پاس مطلوبہ اکثریت موجود ہے۔

تجزیہ کار اطہر کاظمی کے مطابق بیرون ملک پاکستانیوں نے ایمنسٹی اسکیم میں حکومت پر اعتماد ظاہر کیا ہے، قوم کو اعتماد دلانے کی ضرورت ہے کہ جس نے اثاثے چھپا رکھے ہیں وہ ابھی ظاہر کرے ورنہ سخت کارروائی ہوگی۔

اطہر کاظمی نے کہا کہ آج ملک میں جو مہنگائی ہے یہ معاشی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ ملک میں سبسڈی دی جاتی رہی جس سے معیشت پر بوجھ پڑتا رہا اوراب یہ بوجھ مہنگائی کی شکل میں بہت بڑھ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کا معاملہ سب کے لیے اہم ہے۔ جن مشکلات کا سامنا ہے کسی ایک کا اس بحران سے نکالنا آسان نہیں ہے لیکن یہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ قیادت کرے۔

انہوں نے مزید کہنا کہ اے پی سی کا جو اصل مقصد تھا وہ حزب اختلاف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اگر پیپلزپارٹی اپنے منہ سے یہ کہے گی کہ کسی قوت کے کہنے پر چیئرمین سینیٹ لگایا تو اس سے اس کو نقصان ہوگا کہ اب یہ کس کے کہنے پر تبدیلی کی جارہی ہے۔

اینکر پرسن اور تجزیہ کار سید ثمر عباس نے کہا کہ حکومتی اسکیم کے ابھی تک کے نتائج اچھے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے اس اسکیم سے 124 ارب روپے اکٹھے کیے تھے لیکن اس سلسلے میں حکومت کو ناکامی کا سامنا رہا ہے۔ اب اس میں توسیع کے لیے بھی آئی ایم ایف سے منظوری کی ضرورت ہوگی۔

سید ثمر عباس نے کہا کہ عوام کے ممکنہ ردعمل سے وزیراعظم گھبرا گئے ہیں، ان کے بس میں مہنگائی روکنا نہیں ہے۔ بجٹ کے اثرات کے نیتجے میں مزید مہنگائی آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ حزب اختلاف کے موقف کی تائید ہے کہ معیشت کے معاملے پر بات چیت ہونی چاہیے۔ حزب اختلاف نے کمیٹی بنانے کی تجویز دی تھی لیکن حکومت نے اسے این آر او کا رنگ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کے مہنگائی اور حکومت کی خراب پالیسیوں کا ذکر کیا گیا لیکن اب کہا جارہا ہے کہ چیئرمین سینیٹ تبدیل کریں گے، کیا یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہورہا ہے۔ اس معاملے پر حزب اختلاف خود تقسیم ہے۔


متعلقہ خبریں