’فضل الرحمان سب کچھ داؤ پہ لگانے پر تلے ہوئے ہیں‘



اسلام آباد: بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سینیٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا ہے کہ چیئرمین سینیٹ ملک کا مسئلہ نہیں ہیں، حزب اختلاف کے پاس حکومت کے خلاف کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام بریکنگ پوائنٹ ود مالک میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش تھی حزب اختلاف کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) بجٹ کے بعد کرے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ حکومت نے اے پی سی ایک دن قبل ہمارے 6 نکات مان لیے جس کی وجہ سے ہم حزب اختلاف کے ساتھ نہ بیٹھے۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ ہمارا پہلا نقطہ ہے جسے حکومت نے تسلیم کیا جبکہ جپسم کی کان سے متعلق ہماری حکومت سے کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ ہمارے ایجنڈے کا حصہ ہے۔

جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ سوشل میڈیا میں بی این پی پر الزامات لگائے جا رہے ہیں جس میں کوئی حقیقت نہیں۔ جے یو آئی سے ہمارا اتحاد آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔ چیئرمین سینیٹ سے متعلق پارٹی فیصلہ کرے گی جس کے بعد ہی ہم اپنے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس ملک میں مزید تجربات کے سخت خلاف ہیں۔ جب ہمارے پاس ایشو نہیں ہوتے تو ہم سابقہ تجربات شروع کر دیتے ہیں جو درست رویہ نہیں ہے۔

رہنما بی این پی نے کہا کہ شروع سے آج تک بلوچستان میں جمہوریت نہیں رہی جس کی وجہ سے مسائل ہیں۔ وہاں ہمیشہ ہی کنٹرولڈ جمہوریت رہی۔ بلوچستان میں آنے والا وزیر اعلیٰ کسی بڑی جماعت سے نہیں ہوتا اسے لایا جاتا ہے اور وہ آنے کے بعد صرف اپنے لیے سوچتا ہے جس کی وجہ سے صوبے کا بیڑا غرق ہو گیا۔

تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجوہات بہت سی ہیں۔ اگر ملکی معیشت اسی حال میں رہی تو نیشنل سیکیورٹی کونسل بھی خطرے میں رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ فضل الرحمان کی پارلیمنٹ میں باہر ہونے کی وجہ سے بری حالت ہے اور وہ ہر چیز کو داؤ پر لگانے کے لیے تلے ہوئے ہیں، ان سے اچھی سیاست اس وقت بلاول بھٹو کر رہے ہیں۔

جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا کہ آرمی چیف نے واضح کیا ہے کہ تمام اداروں کو ملک کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا اور یہی وجہ ہے تمام ادارے متحرک ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آصف زرداری اور نواز شریف کا مستقبل اب کچھ نہیں ہے۔ اب بلاول بھٹو اور مریم نواز کے لیے کام کیا جا رہا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان صرف اپنے معاملات سیدھے کرنا چاہ رہے ہیں

جنرل امجد شعیب نے کہا کہ بلوچستان کے معاملات خراب کرنے کے ذمہ دار وہیں کے سیاست دان ہیں۔ اس میں کسی اور کا ہاتھ نہیں ہے۔ بلوچستان میں ترقی کے بہت سے مواقع موجود تھے لیکن وہاں کے لیے جاری کیے گئے فنڈز کو ہمیشہ سے فضول استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اکبر بگٹی کو فوج کی جانب سے مکمل تعاون حاصل تھا لیکن وہ اپنے طریقے کی حکومت چاہتے تھے اور انہوں نے بھی ایسے مسائل پیدا کیے جس کی وجہ سے صوبے میں بیرونی مداخلت پروان چڑھی۔

سینئر صحافی فہد حسین نے کہا کہ حکومت کو اپنے اتحادی ٹوٹنے کا خطرہ نہیں ہے اور یہ اتحاد کسی چھوٹے سے مسئلہ پر ختم نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ معیشت کا برا حال سب کو نظر آ رہا ہے اور اب اسٹیبلشمنٹ میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ معیشت کی بہتری کے لیے مشکل فیصلے بھی کیے جا سکتے ہیں کیونکہ بظاہر حکومت سے معیشت ٹھیک نہیں ہو رہی۔

سینئر صحافی نے کہا کہ اے پی سی میں سے کچھ بھی نہیں نکلا اور صرف چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا معاملہ ہی سامنے آیا۔ حزب اختلاف حکومت پر دباؤ تو ڈال سکتی ہے لیکن وہ حکومت نہیں گرا سکتے۔ حزب اختلاف اس وقت صرف اپنا وقت ضائع کر رہی ہے۔ انکے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں