بھارت: بی جے پی نے ملعونہ سنیتا سنگھ کو سزا سنا دی؟

بھارت: بی جے پی نے اپنی ’ملعونہ‘ سنیتا سنگھ کو سزا سنادی؟

نئی دہلی: بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنی پارٹی کی ملعونہ سنیتا سنگھ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے عہدے سے برطرف کر دیا ہے جس نے علی الاعلان انتہا پسند ہندوؤں کو ترغیب دی تھی کہ وہ دس افراد پر مشتمل گروہ بنا کر سرعام مسلمان خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنائیں۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق بی جے پی سے تعلق رکھنے والی ملعونہ سنیتا سنگھ گور نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ سماجی رابطے کی ویب سائٹ  فیس بک پر اپنے پیغام میں جنونی ہندوؤں سے کہا تھا کہ مسلمان خواتین کی سرعام سڑکوں پہ اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے علاوہ بھارت کے تحفظ کو یقینی بنانے کا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پرمتعصب خاتون کے فیس بک کے اسکرین شاٹس سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر وائرل ہوئے تو وہاں شدید ردعمل سامنے آیا۔

انسانیت پر یقین رکھنے والوں نے دیے گئے پیغام پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ملعونہ کے خلاف آہنی ہاتھوں سے کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا اور بطور ثبوت پیغام کو مختلف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر شیئر بھی کیا۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق سماجی رابطوں پر انتہائی گھٹیا اور انسانیت سے گرا ہوا پیغام شیئر کرنے کے جرم پر بی جے پی نے سنیتا سنگھ کو عہدے سے برطرف کرنے کی سزا سنا دی ہے اور ساتھ ہی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پہ اس کا پیغام بھی ہٹا دیا ہے۔

بی جے پی کی خواتین ونگ کی عہدیدار نے اس ضمن میں مؤقف اپنایا ہے کہ کسی کو بھی نفرت انگیزی پھیلانے والے پیغاما ت بھیجنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ خاتون پر پارٹی کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

بی جے پی کی جانب سے اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں ہے اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ یہ شکایات منظر عام پر آ چکی ہیں کہ حکمراں جماعت کے کئی رہنما سرعام مسلمان خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنانے جیسے گھناؤنے جرم کی حوصلہ افزائی کرتے پائے گئے ہیں۔

سماجی ماہرین کا استفسار ہے کہ انسانیت کو ڈوب مرنے کے مقام پہ لے جانے کی ترغیب دینے والی بی جے پی کی سنیتا سنگھ  کے لیے کیا صرف یہی سزا کافی ہے کہ اسے پارٹی عہدے سے برطرف کردیا جائے؟

یہاں یہ سوال بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ نے نفرت انگیزی سے بڑھ کر بجھیجے جانے والے پیغام پرکیا کارروائی کی ہے کیونکہ سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد سے ٹوئٹر اور فیس بک پر ایسی پوسٹس پر پابندی لگانے کے دعوے کیے گئے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر واقعی بی جے پی کی حکومت اقلیتوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص اپنے ہی ملک کا شہری سمجھتی ہے تو ان کے یقینی تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ نفرت انگیزی کی سیاست کو پروان چڑھانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کو یقینی بنائے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو وگرنہ ہجوم کے ذریعے پھیلائی جانے والی سرعام دہشت گردی خود بھارت کی سالمیت کو داؤ پر لگا رہی ہے۔


متعلقہ خبریں