ہانگ کانگ: مظاہرین کا پارلیمنٹ پر دھاوا

ہانگ کانگ: مظاہرین کا پارلیمنٹ پر دھاوا

فائل فوٹو


ہانگ کانگ میں ایک بل کیخلاف لاکھوں افراد کئی ہفتوں سے مظاہرے کر رہے ہیں اور گزشتہ شب پارلیمنٹ پر بھی دھاوا بھی بولا گیا ہے۔

پولیس نے مظاہرین کو باہر نکالنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا جس کے سبب حالات مزید کشدہ ہوگئے ہیں۔

سوموار کے روز حالات اس وقت خراب ہوئے جب ہزاروں افراد برطانوی راج کے بعد چین کے زیر تسلط  دیے جانے کے 22 سال مکمل ہونے پر احتجاج کر رہے تھے۔ ہر سال ہونے والے اس حتجاج کو ہانگ کانگ میں حکومت مخالف تصور کیا جاتا ہے۔

نصف شب کے قریب درجنوں افراد پارلیمنٹ میں داخل ہوگئے، فرنیچر توڑا اور دیواروں پر رنگ سے پیغامات بھی تحریر کیے۔ پولیس نے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کا استعمال کیا اور ایک گھنٹے میں تمام مظاہرین کو عمارت سے باہر نکال دیا۔

مظاہرین کیا چاہتے ہیں؟

ہانگ کانگ کےعوام ایک ایسے قانون کو منظور ہونے سے رکوانا چاہتے جس کے تحت مشتبہ ملزمان کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے چین بھیجا جائے گا۔

اس قانون کے حمایتیوں کا مؤقف ہے کہ مذہبی اور سیاسی مشکلات کا سامنا کرنے والے افراد کو چین جانے سے روکنے کے لیے لائحہ عمل موجود ہے اور اس کی منظوری میں کوئی قباحت نہیں۔

لیکن ناقیدین کہتے ہیں کہ ہانگ کانگ کو چین کے انتہائی ناقص انصاف کے نظام کا سامنا کرنا پڑے گا اور عدلیہ کی آزادی بھی متاثر ہوگی۔

ہانگ کانگ نے دنیا کے 20 ممالک کے ساتھ اس قسم کے معاہدے کر رکھے ہیں جن کے تحت ملزمان ایک دوسرے کے حوالے کیے جاتے ہیں لیکن چین کے ساتھ  دو دہائیوں سے جاری مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔

مسئلہ شروع کہاں سے ہوا؟

فروری2018 میں چین کے زیر انتظام تائیوان میں ہانگ کانگ کے ایک شہری نے مبینہ طور پر اپنی گرل فرینڈ کو قتل کردیا اور فرار ہوکر واپس اپنے ملک آگیا تھا۔

تائیوانی حکام نے ہانگ کانگ سے اس شخص کی حوالگی کا مطالبہ کیا لیکن ہانگ کانگ نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان ملزمان کی حوالگی سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہے۔

اب ہانگ کانگ کی حکومت چین کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہتی ہیں جس کے لیے پارلیمنٹ سے قانون پاس کروانا ہوگا لیکن عوام مجوزہ قانون کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں