’ْ پروڈکشن آرڈر کے قوانین میں تبدیلی کا فیصلہ درست ہے‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا اراکین پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر سے متعلق موجودہ قوانین میں تبدیلی کا فیصلہ درست ہے۔

پروگرام ویورز میکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار عامر ضیاء نے کہا کہ اچھی جمہوریت میں الزام پر لوگ عہدوں سے خود ہی الگ ہوجاتے ہیں۔ بدعنوانی اور منی لانڈرنگ جیسے الزامات پر اراکین کو خود ہی اپنی رکنیت معطل کرانی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ احتساب جمہوریت کا بنیادی ستون ہے، امیر آدمی کو چوری پر زیادہ سزا ملنی چاہیے۔

تجزیہ کار امجد شعیب نے کہا کہ منی لانڈرنگ سمیت سنگین الزامات پر اراکین اسمبلی کو کچھ چیزوں سے محروم کیا جانا چاہیے۔ الزام زدہ لوگوں کا اسمبلی میں آنا ایوان کی توہین ہے۔

تجزیہ کار وحید حسین نے کہا کہ وزیراعظم کو تحفظات ہیں کہ قوانین کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ اس قانون کے اندر ترمیم کرکے سنگین الزامات والے اراکین کو الگ کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کو اس قانون میں تبدیلی کے لیے سادہ اکثریت درکار ہے۔

تجزیہ کار نذیر لغاری کا کہنا تھا کہ اگر ارکان اسمبلی ایوان میں نہیں آتا تو اس کے علاقے کی نمائندگی نہیں ہوتی۔ اگر جیل میں کوئی عوامی نمائندہ ہے تو اسے وہاں سہولیات دی جانی چاہئیں۔

رضا رومی کا بھی کہنا تھا کہ پارلیمانی جمہوریت میں اراکین اسمبلی حلقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عدالتیں جب تک کسی کو سزا نہیں دیتیں وہ معصوم ہے اور اسے تب تک سہولیات سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں نذیرلغاری نے کہا کہ حکومت اپوزیشن کو انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے کیونکہ ادارے حکومتی اراکین پر ایسے ہی الزامات پر کارروائی نہیں کررہے ہیں۔

رضا رومی کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں کی ایسے گرفتاریوں سے سارا عمل ہی مشکوک ہوجاتا ہے، اس سے حکومت کے حصے میں صرف بدنامی آتی ہے۔ لوگوں کے زہنوں میں یہی تاثر بن رہا ہے کہ حکومت انتقامی کارروائیاں کررہی ہے۔

عامر ضیاء نے کہا کہ الزامات پر سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے۔ جو بھی غلط کام کرے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، لیکن ماضی میں احتساب نہیں ہوا اس بنیاد پر کسی کو رعایت بھی نہیں ملنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں الزام زدہ افراد کے بجائے اپنے اداروں کی بات پر اعتماد کرنا چاہیے۔

امجد شعیب نے کہا کہ کاش اداروں کو ایسے تباہ نہ کیا جاتا کہ وہ سب کا بلاامتیاز احتساب کرسکتے۔ مقدمات بنتے ہیں لیکن انصاف نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف کے جن لوگوں پر الزامات ہیں انہیں گرفتار کرنا ماضی کے حکمرانوں کی ذمہ داری تھی جو انہوں نے نہیں کیا۔

وحید حسین کا کہنا تھا کہ احتساب سب کو ہونا چاہیے۔ لیکن موجودہ حالات میں یہ تاثر مضبوط ہوگیا ہے کہ اپوزیشن کے لوگوں کو پکڑا جارہا ہے، جس سے یہی لگتا ہے کہ حکومت انتقامی کارروائیاں کررہی ہے۔

چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کی حوالے سے امجد شعیب نے کہا کہ  اپوزیشن کا ایک نام پر متفق ہونا مشکل ہے، ان کے اندر ایک دوسرے کے حوالے سے شکوک وشہبات ہوتے ہیں، جماعتوں کے اندر اعتماد کا فقدان ہے۔

عامر ضیاء نے اپنے تجزیے میں کہا کہ حزب اختلاف کے لیے آسان ہدف ہے لیکن یہ امتحان بھی ہے کہ تحریک چلانا چاہتے ہیں یا نہیں۔ جماعتوں کے اندر بھی عدم اعتماد ہے۔

نذیرلغاری کا کہنا تھا کہ یہ اپوزیشن کی بے وقت کی راگنی ہے، اپوزیشن جماعتیں اپنا اپنا چیئرمین لانا چاہتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کو اپوزیشن کو جوڑنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے مزید تقسیم کردیا ہے۔

رضا رومی نے کہا کہ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی، اپوزیشن کے اندر بھی تقسیم ہے لیکن یہ ختم بھی ہوسکتی ہے۔

وحید حسین کا کہنا تھا کہ اپوزیشن خود تقسیم ہے جیسے مسلم لیگ ن میں واضح تقسیم موجود ہے، وزیراعظم سے اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی ملاقاتوں کے بعد اپوزیشن پر مزید دباو بڑھا ہے اور اپوزیشن کے پاس چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کا کوئی جواز بھی نہیں ہے۔

امجد شعیب نے کہا کہ کئی نامورسیاستدانوں کے ظاہرکردہ اثاثے ان کے طرز زندگی سے مطابق نہیں رکھتے ہیں۔

عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ قانون سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے، اراکین پارلیمنٹ کی سکرونٹی کے عمل کو مزید سخت کرنا چاہیے۔

رضا رومی کی رائے تھی کہ عوام کی نمائندگی کرنے والوں کے لیے قانون سخت ہونا چاہیے کہ انہوں نے عوام کے لیے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔

وحید حسین کا کہنا تھا کہ قانون مزید سخت کرنے کے بجائے موجودہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے۔


متعلقہ خبریں