کیا پودے تکلیف محسوس کرتے ہیں؟


یہ سوال ہر کسی کے ذہن میں آتا ہے کہ کسی ویران جگہ پر اگر آندھی کے باعث درخت ٹوٹ کر گر پڑے تو کیا اسے تکلیف یا تنہائی کا احساس ہوتا ہو گا؟

سائنسدانوں میں اس حوالے سے ہمیشہ سے اختلاف رہا ہے، بعض کا خیال ہے کہ درختوں، پودوں اور جڑی بوٹیوں میں بھی شعور اور احساسات موجود ہوتے ہیں جبکہ زیادہ تر اس تصور سے متفق نہیں۔

2006 سے ’پلانٹ نیورولوجی‘ کے نام سے قائم ہونے والے شعبے کے بعد سے سائنسدانوں میں یہ بحث چھڑ گئی کہ کیا درختوں، پودوں اور جڑی بوٹیوں میں کسی درجے کا شعور اور احساسات موجود ہوتے ہیں؟

کئی سائنسدان جانوروں کے نروس سسٹم اور درختوں میں بجلی کے سگنلز کی موجودگی کے باعث یہ رائے رکھتے ہیں کہ درخت شعور بھی رکھتے ہیں اور ان میں محسوسات بھی موجود ہیں.

اسی طرح کئی سائنسدان یہ دعویٰ کرتے تھے کہ پودوں میں دماغ کی غیرموجودگی کے باوجود ذہانت موجود ہے کیونکہ بہت سے پودے ہجوم میں گھبرا جاتے ہیں، بعض چھونے پر سمٹ جاتے ہیں، کئی ایک دوسرے سے فاصلے سے رابطہ رکھتے ہیں۔

تاہم دو سائنسدان، ٹاڈ فین برگ اور جون میلٹ اپنی طویل ریسرچ کے بعد اس سے مختلف نتائج پر پہنچے ہیں، 3 جولائی کو شائع ہونے والے مقالے میں انہوں نے کہا ہے کہ صرف ریڑھ کی ہڈی یا اس کے بغیر والے جانور اور سرپائیوں میں شعور اور احساس موجود ہوتا ہے جبکہ پودے اس سے یکسر محروم ہیں اور نظریہ ارتقا کی روشنی میں انہیں شعور کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ چونکہ پودوں میں دماغ نہیں ہوتا اس لیے وہ نہ ہی سوچ سکتے ہیں اور نہ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔

دنیا میں ایسے خاص قسم کے پودے موجود ہیں جنہیں اگر زمین پر گرایا جائے تو ان کے پتے سمٹ جاتے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے وہ خود دفاعی نظام کے تحت ایسا کر رہے ہوں، اگر انہیں بار بار زمین پر گرایا جائے تو وہ اپنے پتوں کو سمیٹنا چھوڑ دیتے ہیں جس سے ماہرین یہ نتیجہ نکالتے تھے کہ جب انہیں احساس ہوا کہ گرنے سے کوئی نقصان نہیں پہنچا تو انہوں نے دفاعی رویہ ترک کر دیا۔

لیکن لنکن ئائز اور ایلکس جارڈن جیسے ماہرین اسے ایک خودکار میکنزم قرار دیتے ہیں جس کے پیچھے کسی قسم کا شعور کارفرما نہیں ہوتا۔


متعلقہ خبریں