تھرپارکر:48 گھنٹوں میں چار بچوں نے دم توڑ دیا، تعداد 413 ہوگئی

تھرپارکر:48 گھنٹوں میں چار بچوں نے دم توڑ دیا، تعداد 413 ہوگئی

تھرپارکر: غذائی قلت و موذی امراض کے سبب معصوم و شیر خوار بچوں کی اموات کا سلسلہ رک نہیں سکا ہے، دو دن میں سول اسپتال مٹھی میں چار بچے انتقال کرگئے ہیں جس کے بعد ماہ رواں انتقال کرنے والے بچوں کی تعداد دس ہوگئی ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق رواں سال اپنی جانوں کی بازی ہارنے والے بچوں کی تعداد 413 تک پہنچ گئی ہے۔

ہم نیوز کے نمائندے ’فقیر بشیر‘ نے مٹھی تھرپارکر سے بتایا ہے کہ سول اسپتال مٹھی میں گزشتہ دو دن کے دوران جن بچوں کی اموات ہوئی ہیں ان میں اسلام کوٹ کے گاؤں ڈینڑیوں کی رہائشی 14 روزہ حنیفان بنت اللھ بخش، ایک ماھ کا نوید پاڑھو، پانچ سالہ ذوالفقار اللھ جڑیو اور پربھو میگھواڑ کا نومولود بچہ شامل ہیں۔

بچوں کی اموات کے حوالے سے ذمہ دار ذرائع نے ہم نیوز کو بتایا ہے کہ غذائی قلت اور جان لیوا موضی امراض کا شدت سے پھیلنا بنیادی وجوہات ہیں۔

ہم نیوز کے مطابق ضلع تھرپارکرکے سرکاری اسپتالوں میں اس وقت بھی سینکڑوں بچے زیر علاج ہیں لیکن طبی سہولیات کا بے حد فقدان ہے جس کی وجہ سے متاثرہ والدین اور بچوں کے عزیز و اقارب سخت پریشانی کا شکار ہیں۔

ذمہ دار ذرائع کا ا س ضمن میں کہنا ہے کہ بچوں کی اموات کی اطلاعات جب علاقے سے باہر جاتی ہیں اور ذرائع ابلاغ اپنی توجہ اس بنیادی انسانی مسئلے کی جانب مبذول کرتے ہیں تو اعلیٰ حکام اپنی خفگی مٹانے اور ’دنیا‘ کو دکھانے کے لیے اسپتالوں کے عملے پر برہمی کا اظہار کردیتے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ نـظرانداز کردیتے ہیں کہ جان لیوا موذی امراض کا علاج سادہ گولیوں سے نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ’خوشنما‘ تقاریر سے غذائی قلت دور ہوتی ہے۔

ہم نیوز کے مطابق صوبہ سندھ کے محکمہ صحت کے اعلیٰ اذہان نے اپنی جھینپ اور شرمندگی مٹانے کا یہ بہترین ’حل‘ نکالا ہے کہ اسپتالوں کے عملے کو واضح ہدایات دے دی ہیں کہ وہ کسی بھی قیمت پر ذرائع ابلاغ سے بات چیت نہ کریں۔

ذمہ دار ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اسپتالوں کے عملے کو اندرون خانہ یہ ہدایات بھی دی گئی ہیں کہ وہ بچوں کی اموات کی تفصیلات بھی سرکاری ریکارڈز میں کم سے کم درج کریں تاکہ اعداد و شمار کو ’مناسب‘ تعداد میں رکھنا ممکن ہوسکے۔

سرکاری اعداد و شمار کے ذریعے زمینی حقائق پر پردہ ڈالنے کی یہ کوئی نئی کوشش نہیں ہے۔ ماضی میں بھی حکومتیں اسی طرح جرائم کے بڑھتے گراف پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی آئی ہیں جس کی وجہ سے عوام الناس کو یہ شکایات رہی ہیں کہ پولیس ان کی ایف آئی آر درج نہیں کرتی ہے اور اگر بالفرض محال درج بھی کرلے تو اپنی مرضی سے کرتی ہے جس کا براہ راست فائدہ مجرمان کو ہوتا ہے۔


متعلقہ خبریں