’حزب اختلاف کے خلاف کارروائیوں سے تعصب کی بو آتی ہے‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی حزب اختلاف رہنماؤں کے خلاف کارروائیوں سے سیاسی بنیاد پر مقدمات کا تاثر مضبوط ہوتا ہے۔

پروگرام ویوز میکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار سید ثمر عباس نے کہا کہ کچھ کیسز ایسے ہیں جن سے لگتا ہے کہ اس معاملے پر سیاست ہورہی ہے جیسے رانا ثناء اللہ کی گرفتاری ہوچکی ہے لیکن اب تک اس حوالے سے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔

تجزیہ کار ائیر مارشل (ر) شاہد لطیف نے کہا کہ حکومتی کارروائیوں سے یہی لگتا ہے کہ حزب اختلاف کو نشانہ بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ حکومت جو کارروائی کرتی ہے اس کا جواز نہ ہونے سے معاملہ مشکوک ہوجاتا ہے۔

تجزیہ کار ناصر بیگ چغتائی کا کہنا تھا کہ یہ تاثر مضبوط یے کہ حکومت سیاسی کارروائیاں کررہی ہے کہ حزب اختلاف کی جماعت کا اہم رہنما گرفتار ہوا لیکن اب تک تسلی بخش وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

تجزیہ کار رضا رومی نے کہا کہ سیاست میں تاثر سچ سے زیادہ اہم ہوتا ہے اور یہی تاثر ہے کہ حکومت سیاست کررہی ہے، حکومت کارکردگی سے توجہ ہٹانے کے لیے گرفتاریاں کررہی ہے۔

تجزیہ کار اور ماہر قانون راجہ عامر عباس کی رائے تھی کہ اے این ایف کی کارروائی عالمی سطح کی ہوتی ہے، ثبوتوں کے بغیر کارروائی نہیں ہوتی ہے جیسے ایفیڈرین کا معاملہ آسٹریلیا سے شروع ہوتا ہے۔ رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کا تعلق سیاست سے نہیں بلکہ جرائم سے ہے۔

ناصر بیگ چغتائی کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے باوجود معاشی استحکام نہیں آیا ہے، بجٹ میں جو نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں اس سے عام آدمی پر مزید بوجھ بڑھ گیا ہے۔

رضا رومی کا کہنا تھا کہ جس ملک میں بھی آئی ایم ایف کا پروگرام آیا وہاں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔

ثمرعباس نے کہا کہ مہنگائی میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہوگا۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر سبسڈی ختم کی گئی جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔

شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے قرض مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے نہیں دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے ہر چیز پر ٹیکسوں میں اضافے سے عام آدمی کے لیے مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔

راجہ عامرعباس کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونا معیشت کےلیے اچھا ہے۔

چیئرمین نیب جاوید اقبال کے بیان کے حوالے سے راجہ عامر نے کہا کہ نیب نے ابھی تک خود کوئی مقدمہ نہیں بنا ہے، نیب کی اپنی کوئی کارکردگی نہیں ہے۔ نیب میں اگر بہتر لوگوں کو لگایا گیا ہوتا تو اب تک کارکردگی بہتر ہوچکی ہوتی۔

ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ سیاسی مقدمات نہیں چلائے جارہے ہیں تو چیئرمین نیب بار بار وضاحت کیوں کرتے ہیں، وہ اپنا کام کریں۔ رضا رومی کا کہنا ہے کہ نیب کے اندر صلاحیت محدود ہے، مقدمات شروع ہوتے ہیں لیکن سزائیں نہیں ہوپاتیں جس وجہ سے معاملہ سیاست کی نذر ہوجاتا ہے۔

شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ نیب کی تاریخ ہی سیاست ہے، ہر حکومت نے اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ نیب ان کاموں میں ملوث رہی ہے، ابھی بہتر کام کرنے کی کوشش ہورہی ہے لیکن صلاحیت ہی نہیں ہے۔

ثمر عباس نے کہا کہ چیئرمین نیب کا کام احتساب کرنا ہے بیانات دینا نہیں۔ ان کی جانب سے  دئیے گئے بیانات میں تضاد موجود ہے اس لیے ان کارروائیوں سے سیاست کی جھلک نظر آتی ہے۔


متعلقہ خبریں