بھارتی پروفیسر کا انوکھا کمال، پلاسٹک سے پیٹرول بنا لیا


اسلام آباد: اس میں شک نہیں کہ تیزی سے ترقی کرتی سائنس انسان کو ایک ایسے عہد میں لے جارہی ہے کہ جہاں وہ اشیا فرسودہ قرار دے کر جیتی جاگتی زندگی سے خارج کی جانے لگی ہیں جن کے بنا کچھ ہی عرصہ قبل جینا نا ممکن لگتا تھا لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمامتر سائنسی ترقی کے باوجود پٹرول کی قدر و قیمت میں آج بھی کوئی فرق نہیں آیا ہے حالانکہ توانائی کے متبادل ذرائع دریافت کیے جا چکے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک جانب دنیا کی بڑی طاقتیں کسی بھی طریقے سے پیٹرول کی دولت کے حصول میں ہمہ وقت سرگرداں رہتی ہیں تو وہیں سائنسدان اور انجینئربھی متلاشی دکھائی دیتے ہیں کہ وہ کسی طرح پیٹرول جیسی بیش قیمت دولت بنانے کا کوئی سائنسی طریقہ ایجاد کرلیں اور یا پھر انہیں اس کے متبادل کم قیمت توانائی میسر آجائے۔

ایسی ہی ایک کوشش کے دوران چند سال قبل پاکستان میں ایک شخص نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ کار کو پیٹرول کے بجائے پانی سے چلاسکتے ہیں۔ ان کے دعوے کی تصدیق کے لیے متعدد ٹی وی پروگرامز کیے گئے لیکن پھر حیرت انگیز طور پر پانی سے کار چلانے کا دعوے دار منظر عام سے ایسے اڑن چھو ہو گیا کہ جیسے اس کا وجود ہی نہیں تھا مگر آج ہم آپ کی ملاقات ایک ایسے میکینیکل انجینئر سے کرا رہے ہیں جو خود پیٹرول بنا کر لوگوں کو فروخت کر رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی ریاست حیدرآباد دکن کے رہائشی پروفیسر اپنے تیار کردہ پیٹرول کی قیمت بھی سرکاری نرخ کی نسبت نصف وصول کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ جوق درجوق ان کے گھر کا رخ کرتے ہیں بلکہ اب تو ایک مقامی صنعتی یونٹ ہی ان سے تیارکردہ سارا پیٹرول خرید لیتا ہے۔

۔۔۔ہے نا حیرانی کی بات !!! کیونکہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پیٹرول تو زیر زمین پایا جاتا ہے اور یا پھر زیر سمندر نکلتا ہے تو پروفیسر اسے تیار کیسے کرسکتے ہیں؟

۔۔۔ تو جناب! یہی تو پروفیسر کا کمال ہے کہ وہ زیرزمین یا زیر سمندر نکلنے والے پیـٹرول کو فروخت نہیں کرتے ہیں بلکہ خود پیٹرول تیار کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ پلاسٹک کا استعمال کرتے ہیں۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق طلبہ کو مکینیکل انجینئرنگ پڑھانے والے پروفیسر ستیش کمار کا کہنا ہے کہ انہوں نے پلاسٹک پائرولیسس نامی تین سطحی عمل کا استعمال کرتے ہوئے پلاسٹک سے پیٹرول تیار کیا ہے۔

اس طریقہ کار کے مطابق پلاسٹک کو ری سائیکل کر کے اس سے ڈیزل، ایوی ایشن فیول اور پیٹرول تیار کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر کا دعویٰ ہے کہ اس طریقہ کار کے تحت ایسا پلاسـٹک بھی پیٹرول تیار کرنے کے کام آ سکتا ہے جسے ری سائیکل کرنا ناممکن ہوتا ہے۔

بھارت کے مؤقر اخبارکے مطابق پروفیسر ستیش کمار کا کہنا ہے کہ 500 کلوگرام نان ری سائیکل ایبل پلاسٹک سے 400 لیٹر پیٹرول تیار کیا جاسکتا ہے۔

پلاسٹک سے پیٹرول تیار کرنے والے پروفیسر کا طریقہ کار کے متعلق کہنا ہے کہ یہ سادہ سا طریقہ کار ہے جس میں نہ پانی استعمال ہوتا ہے اور نہ ہی خارج ہوتا ہے۔ 45 سالہ پروفیسر کا دعویٰ ہے کہ اس طریقہ کار کی وجہ سے فضا بھی آلودہ نہیں ہوتی ہے کیونکہ سب کچھ ویکیوم میں ہوتا ہے۔

پروفیسر ستیش کمار کے تیار کردہ پیٹرول کو ایک مقامی انڈسٹری باقاعدگی سے 50 /40 روپے فی لیٹر کے حساب سے خرید رہی ہے۔ بھارت میں پیٹرول کا سرکاری نرخ اس سے دوگنا ہے۔

پلاسٹک سے پیٹرول تیار کرنے اور اسے قانوناً فروخت کرنے کے لیے پروفیسر ستیش کمار نے ایک کمپنی بھی چھوٹے پیمانے کی صنعت سے متعلق وزارت میں رجسٹرڈ کرائی ہے۔

بھارت کی نیوز ایجنسی ’نیوز18‘ کے مطابق 2016 سے اب تک پروفیسر نے 50 ٹن ری سائیکل نہ ہوسکنے والے پلاسٹک کو پیٹرول کی تیاری کے لیے استعمال کیا ہے۔

پروفیسر ستیش کمار کے مطابق انہوں نے یہ منصوبہ صرف فضائی آلودگی سے پاک ماحول کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے شروع کیا تھا اور اس کا قطعی مقصد تجارتی بنیادوں پر پیٹرول کی تیاری نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ وہ مستقبل کو فضائی آلودگی سے پاک دیکھنے کے خواہش مند ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تیار کردہ ٹیکنالوجی ہر اس شخص کو دینے پہ آمادہ ہیں جو اس میں دلچسپی رکھتا ہو۔

بھارت کے ذرائع ابلاغ کے مطابق اس وقت پروفیسر کی جانب سے رجسٹرڈ کرائی گئی کمپنی یومیہ 200 لیٹر پیٹرول تیار کررہی ہے جس کے لیے اسے 200 کلو گرام پلاسٹک درکار ہوتا ہے۔


متعلقہ خبریں