’بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانے کے باوجود معیشت بہتر نہیں ہوئی‘


اسلام آباد: ماہر معاشیات اکبر زیدی نے کہا ہے کہ 1980 کے بعد سے ہم عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس 12 مرتبہ جا چکے ہیں اور اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کی کڑوی گولی کھانے کے باوجود ہمارے معیشت کا مرض ٹھیک نہیں ہوا۔

ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ میں میزبان عامر ضیاء سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر یہ حکومت رہتی ہے یا یہ وزرا رہتے ہیں تبھی جا کرپتا چلے گا کہ آئی ایم ایف پلان کام کرے گا یا نہیں اور اس بات کا اندازہ 2 سے 3 سال بعد ہو گا۔

اکبر زیدی نے کہا کہ جب ملک میں ٹیکس اکٹھا نہیں ہوتا تو معیشت سکڑنا شروع ہو جاتی ہے۔

توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ جو ادارے اور لوگ بجلی چوری کرتے ہیں انہیں پکڑنا چاہیئے، زیادہ تر بجلی چوری میں  سرکاری ادارے ملوث ہوتے ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ شرح سود بڑھانے کے بہت نقصانات ہوتے ہیں، جو بڑی کمپنیاں قرضے لے کر سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں وہ اس کی وجہ سے نہیں کر پاتی۔

موجودہ اقتصادی ٹیم نے معیشت کی بیماری کی نشاندہی کر دی ہے، فرخ سلیم 

ماہر معاشیات فرخ سلیم نے کہا کہ اسٹیٹ بنک کے گورنررضا باقر اور مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے ملک کو درپیش معاشی بیماری کی نشاندہی صحیح طور پر کر دی ہے، انہیں معلوم ہے کہ ملکی معیشت کو  بجٹ اور تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس بیماری کے علاج کا منصوبہ موجود ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ مشیر خزانہ کی ذمہ داری 5.5 کھرب روپے کی محصولات اکٹھا کرنا ہے تاکہ بجٹ خسارہ کم ہو سکے جبکہ ڈاکٹر باقر رضا  کو ڈالر کے زرمبادلہ کی شرح کو قابو میں رکھنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔

فرخ سلیم نے کہا کہ حکومت بجلی کی  پیداواری لاگت اور چوری کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے، بھارت اور ویتنام جیسے ممالک میں اسی طریقے سے بجلی بن رہی جیسے پاکستان میں بنتی ہے تاہم وہاں سستی اور پاکستان میں مہنگی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابق معاشی ٹیم کے پاس تو کسی قسم کا منصوبہ ہی موجود نہیں تھا۔

آئی ایم ایف پروگرام اینٹی بائیوٹک دوائیوں کی طرح ہوتا ہے، عابد سلہری

ماہر معاشیات عابد قیوم سلہری کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام اینٹی بایوٹک دوائیوں کی طرح ہوتا ہے، اس کی خوراک پوری نہ کریں تو بیماری مزید طاقت سے واپس آ جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے باعث معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں مدد ملے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس اگر ڈالر بہت بڑی تعداد میں موجود ہوں تو روپے کی قدر میں استحکام برقرار رکھا جا سکتا ہے، گزشتہ 6 سالوں کے دوران 44 ارب ڈالر اوپن مارکیٹ میں پھینکے گئے تاکہ روپے کی قدر کو مستحکم رکھا جا سکے۔

عابد سلہری نے کہا کہ حکومت چاہے بجلی استعمال کرے یا نہ کرے، اسے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو اس کے پیسے دینے پڑتے ہیں، اس وجہ سے گردشی قرضے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2007 میں جب تیل کی قیمتیں 55 ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 110 ڈالر تک پہنچ گئیں تو بجلی کی قیمتوں میں صرف نو فیصد اضافہ کیا گیا، اس کی وجہ سے بھی گردشی قرضہ بڑھتا رہا۔

 

 


متعلقہ خبریں