چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی: ’حزب اختلاف کو ناکامی بھی ہوسکتی ہے‘


اسلام آباد: سئینر تجزیہ کار عامر ضیاء کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے لیے ہونے والی خفیہ ووٹنگ سے حزب اختلاف کو شکست بھی ہوسکتی ہے۔

پروگرام ویوز میکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے عامر ضیاء نے کہا کہ حزب اختلاف کے اندر بھی اتنا اتحاد نہیں ہے جتنا نظر آتا ہے اس لیے چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے لیے ہونے والی خفیہ ووٹنگ میں نتیجہ مختلف بھی ہوسکتا ہے۔

تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ جلسوں سے حکومت پر دباؤ ڈالنے تک تو حزب اختلاف کو کامیابی مل سکتی ہے لیکن تحریک چلتی نظر نہیں آرہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کو چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے معاملے پر کامیابی سے اتنا فائدہ نہیں ہوگا جتنا ناکامی سے نقصان ہوگا۔

تجزیہ کار ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ حزب اختلاف اس وقت حکومت مخالف تحریک کے لیے منظم ہونے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس میں جزوی کامیابی ہی ممکن ہے کیونکہ عوام ابھی تک سرگرم نہیں ہوئے ہیں۔

تجزیہ کار طارق محمود کا کہنا تھا کہ حالات ایسے ہیں کہ حزب اختلاف کے مقاصد بھی واضح نہیں ہیں۔ ان کے اندر بھی واضح تقسیم موجود ہے۔

تجزیہ کار عادل شاہ زیب کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کی تحریک کا آغاز ہوچکا ہے جس میں مزید شدت آئے گی۔ سیاسی جماعتیں بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں جبکہ حکومت کی کارکردگی بھی اچھی نہیں ہے۔

طارق محمود نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اٹھارویں ترمیم اکثریت کے بغیر ختم نہیں ہوسکتی ہے، آصف زرداری سیاسی مقاصد کے لیے ایسے بیانات دیتے ہیں۔

عادل شاہ زیب کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر وزیراعظم بھی وضاحت کرچکے ہیں کہ وہ اٹھارویں ترمیم کو ختم نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے بعد سندھ میں بھی تبدیلی ہوسکتی ہے اس لیے پیپلزپارٹی کی قیادت اس حوالے سے سرگرم ہوگئی ہے۔

ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم اچھی چیز ہے لیکن اس میں غلطیاں بھی ہیں۔ تحریک انصاف کے لوگ اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کئی بار کرچکے ہیں۔

عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے اندر اس حوالے سے تحفظات موجود ہیں لیکن پیپلزپارٹی جس طرح بات کرتی ہے وہ بھی مبالغہ آرائی ہے۔ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ ذمہ داریاں وفاق کے حصے میں جبکہ وسائل صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں۔

امجد شعیب نے اپنے تجزیے میں کہا کہ تحریک انصاف خواہش کے باوجود تبدیلی نہیں کرسکتی ہے، صوبائی اختیارات کا معاملہ اس لیے اٹھایا جاتا ہے کہ باقی بھی سیاسی تحریک میں ساتھ دیں۔

عمران خان کا طرز حکومت آمرانہ ہے، اس حوالے سے سوال کے جواب میں  امجد شعیب نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے لیے سختی ضروری ہوتی ہے لیکن اس وقت ملک قانون کے مطابق ہی چل رہا ہے۔

ناصر بیگ چغتائی کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنے فیصلے کابینہ میں کرتے ہیں، انہیں خود تحفظات ہیں کہ ان کے احکامات پر اس طرح عمل نہیں ہورہا جس طرح وہ خود چاہتے ہیں۔

عامر ضیاء نے کہا کہ پاکستانی سیاست میں مبالغہ آرائی معمولی بات ہے۔ اس وقت کی حکومت نوازشریف کے دور حکومت سے زیادہ جمہوری طریقے سے چل رہی ہے۔

عادل شاہ زیب کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنے فیصلے جمہوری طریقے سے کرتے ہیں۔ لیکن حکومت اداروں میں مداخلت ایسے ہی کرتی ہے جسے سابقہ حکومتوں میں ہوتی رہی ہے۔

طارق محمود کا بھی کہنا تھا کہ عمران خان کا طرز حکمرانی آمرانہ نہیں کیونکہ بہت سارے فیصلے اب بھی ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہورہے ہیں۔

وزیراعظم عمران کے دورہ امریکہ کے حوالے سے امجد شعیب نے کہا کہ امریکہ چونکہ روس، چین، ایران پر دباو نہیں ڈال سکتا اس لیے سارا دباو پاکستان پر ہی ڈالا جائے گا۔

عادل شاہ زیب نے کہا کہ پاکستان ایک بار پھر امریکہ کی ضرورت بن چکا ہے کہ امریکہ ہر صورت افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے، عمران خان کے دورہ پاکستان کو بھی اسی تناطر میں دیکھنا ہوگا۔

ناصر بیگ چغتائی کی رائے تھی کہ بی ایل اے کو عالمی دہشتگرد تنظیم قرار دے کر پاکستان کو مثبت پیغام دیا ہے، امید ہے اب بات چیت اچھی ہوگی۔

طارق محمود کا کہنا تھا کہ افغانستان کے معاملے پر اب ایران کا ہم سے زیادہ اثر ہے، اس معاملے میں ہمارا کردار صرف سہولت کار کا رہ گیا ہے۔

عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ طالبان یہ بات جانتے ہیں کہ امریکہ نے ارادہ کرلیا ہے، وہ اب اس بات کا انتظار کریں گے، اس وقت وہ افغان حکومت کو مستقبل میں زیادہ کردار دینے پر بھی راضی نہیں ہوں گے۔


متعلقہ خبریں