انسانیت کی خدمت کے لیے عامر مہمند کی ’مفت‘ ٹیکسی سروس

انسانیت کی خدمت کے لیے عامر مہمند کی ’مفت‘ ٹیکسی سروس

اسلام آباد: نفسانفسی کے عہد میں جب لوگوں کی بڑی تعداد ذاتی معیار زندگی بہتر سے بہتر بنانے اور زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کی ’ہوس‘ میں مبتلا دکھائی دیتی ہے تو ایسے میں عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر رتھ ، رمضان چھیپا، مدر ٹریسا اور ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے متعدد ’اللہ تعالیٰ‘کے ’خاص‘ بندے وقتاً فوقتاً سامنے آتے ہیں جن کی وجہ سے ’انسان‘ اور ’انسانیت‘ پر سے ڈگمگاتا اشرف المخلوقات کا اعتماد ایک مرتبہ پھر بحال ہونے لگتا ہے۔

انسانیت کی خدمت اور خلق خدا کی دعائیں لینے کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دینے والے ایسے ہی بڑے ناموں کا ’پیروکار‘ عامر مہمند ہے جو گزشتہ دو سال سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد جسے عرف عام میں ’گریڈوں کا شہر‘ اور ’شہر اقتدار‘ بھی کہا جاتا ہے، کی سڑکوں پہ اپنی ٹیکسی دوڑاتا پھرتا ہے لیکن اس کی بھاگ دوڑ کا مقصد عام مسافروں کو منزل مقصود پہ پہنچا کرکرایہ وصول کرنا نہیں ہوتا ہے کیونکہ اس کے مسافروں کی اکثریت تو اسے کرایہ ادا نہیں کرتی ہے اور صرف دعائیں دیتی ہے۔

عامر مہمند کے مسافروں کی غالب اکثریت ان بیماروں، غریبوں، معذوروں پر مشتمل ہوتی ہے جو اسلام آباد میں قائم کچی بستیوں کے مکین ہیں اورغربت کے سبب آمد و رفت کا کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے شہر مردان سے تعلق رکھنے والا عامر مہمند اسلام آباد میں مقیم ہے اورصرف اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے خلق خدا کی خدمت پہ خود کو ’مامور‘ کیے ہوئے ہے۔

ہم نیوز سے بات چیت میں اس کا کہنا تھا کہ جب لوگوں کو مالی تنگی کے سبب مشکلات کا شکار دیکھا تومیں نے فیصلہ کیا کہ اپنی ٹیکسی سے ایسے مسافروں کو اسپتالوں تک مفت پہنچاؤں گا جو کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔

عامر مہمند کے مطابق شروع میں تو ایک دو افراد ہی میری جانب سے فراہم کی جانے والی ’مفت خدمت‘ کی سہولت سے فیضیاب ہوتے تھے لیکن پھر رفتہ رفتہ لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی اور مجھے بھی خدمت کرکے زیادہ خوشی و مسرت محسوس ہونے لگی تو میں نے ٹیکسی پہ مفت خدمت کے حوالے سے ایک سفید کاغذ چسپاں کردیا جس پر موبائل نمبر بھی درج ہے۔

ہم نیوز کے استفسار پر عامر مہمند نے بتایا کہ ابتدا میں ٹیکسی میرا ذریعہ معاش تھی اور ساتھ ہی اپنی بساط کے مطابق لوگوں کو مفت خدمت کی سہولت بھی دیتا تھا لیکن جب ’متاثرین‘ کی تعداد بڑھنے لگی تو گھر والوں نے بھی میرا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جس کے تحت مجھے معاشی ’جکڑ بندیوں‘ سے آزاد کردیا۔

اس ضمن میں اس نے بتایا کہ وہ مشترکہ خاندانی نظام (جوائنٹ فیملی سسٹم) کے تحت مردان میں رہتے ہیں جہاں ان کے بڑے بھائی کا اچھا کاروبار ہے جس کی وجہ سے انہیں اب زیادہ فکر اپنے گھر کی نہیں ہوتی ہے تو وہ جو کچھ بھی کماتے ہیں وہ یہیں خرچ کردیتے ہیں کیونکہ گھر کے خرچے سے وہ کافی حد تک بے فکر ہیں۔

عامر مہمند نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پہلے وہ لوگ زیادہ رابطہ کرتے تھے جو حقیقتاً بہت زیادہ غریب ہوتے تھے لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ایسے افراد کو بھی مجھ سے رابطہ کرنے پر ’مجبور‘ کیا ہے جنہوں نے شاید اس سے پہلے کبھی کسی سے مدد نہ لی ہو اور ان کا شمار کم متوسط طبقے میں ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جن مریضوں کو اسپتال لے کر جاتے ہیں انہیں ڈاکٹروں کے معائنے کے بعد واپس گھر بھی چھوڑتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مریضوں کو وہ پمز یا پولی کلینک لے کر جاتے ہیں۔

عامر مہمند نے تسلیم کیا کہ جب ڈاکٹروں کے معائنے کے بعد مریض واپس ٹیکسی میں آکر بیٹھتے ہیں تو ان کی حالت ’دیدنی‘ ہوتی ہے کیونکہ اسپتالوں سے دوائیں ملتی نہیں ہیں اور جن کی جیب میں کرایہ ادا کرنے کی سکت نہ ہو وہ مہنگی ادویات کیونکر اور کیسے خرید سکتے ہیں؟

انہوں نے بتایا کہ ایسی صورتحال میں زندگی کے بہت مشکل مرحلے سے گزرتا ہوں کیونکہ مریض کو بنا ادویات گھر واپس لے جانے کے تصور سے روح کانپ جاتی ہے اور جیب میں اتنی زیادہ سکت نہیں ہوتی ہے تو جو کچھ بن پڑتا ہے وہ کر گزرتا ہوں اور باقی دعا کرتا ہوں۔

ایک سوال پر عامر مہمند نے بتایا کہ جب انہیں لوگ فون کرتے ہیں تو وہ بمشکل دس منٹ میں ان تک پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب سے خلق خدا کی خدمت کو اپنی زندگی کا شعار بنایا ہے اس وقت سے زیادہ مطمئن اور خوش ہوں۔

عامر مہمند کے مطابق بسا اوقات انہیں مریضوں کی وجہ سے دور افتادہ علاقوں کا بھی سفر کرنا پڑتا ہے جب کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خود کو اسلام آباد تک ہی محدود رکھیں کیونکہ اس سے زیادہ کے لیے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔

اردو کے ممتاز شاعر حضرت خواجہ میر درد نے کہا تھا کہ ؎

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں

انسانی تاریخ میں گزرنے والے تقریباً تمام فلسفیوں نے اس ’حقیقت‘ تک رسائی ضرور حاصل کی کہ انسان کی پیدائش کا بنیادی مقصد خلق خدا کی خدمت ہے۔ مختلف مذاہب اور معاشروں میں خلق خدا کی خدمت ہی کو ’راز حیات‘ قرار دیا گیا ہے۔

یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ عامر مہمند، نئے پاکستان کا وہ روشن چہرہ ہے جس نے ’سراغ زندگی‘ پا لیا ہے جبھی تو اللہ تعالیٰ کی تخلیق ’اشرف المخلوقات‘ کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا یا ہے۔

بلاشبہ! عامر مہمند جیسے نوجوان ہی ہمارا مستقبل اور نئے روشن پاکستان کے اصل ’ہیرو‘  ہیں۔


متعلقہ خبریں