ہیٹ ویو کے باعث بھارتی عوام اور معیشت مشکلات کا شکار

’ہیٹ ویو کے باعث بھارتی معیشت کو شدید نقصان پہنچا‘

شمالی بھارت میں جاری شدید قسم کی گرمی کی لہر سے اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور کروڑوں افراد کو پانی کی سپلائی معطل ہو چکی ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں بیروزگاری کی شرح نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور حکومت کو بڑے مالی خسارے کا سامنا ہے، گرمی کی لہر سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنا بھارت کے نئے وزیرخزانہ نرملا ستھارم اور وزیراعظم نریندر مودی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

کچھ تجزیہ کار گزشتہ حکومتوں کو موردالزام ٹھہراتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کو گھر میں بیٹھ کر کام کرنے کے مواقع نہیں دیے جس کے باعث انہیں ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔

اس وقت گرمی کی لہر کے سب سے زیادہ شکار بھارت کے غریب ترین علاقے ہیں، شمال مشرقی ریاست بہار میں جون میں درجہ حرارت 45 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا جس کے باعث حکومت کے مطابق 180 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، مقامی میڈیا یہ تعداد 300 تک بتا رہا ہے۔

ریاستی حکام نے صبح 11 بجے سے شام 4 بجے کے دوران تعمیرات کے کاموں پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔

یاد رہے کہ بھارت میں 2015 میں گرمی کی شدید لہر کے باعث 2500 افرد ہلاک ہو گئے تھے، اس کے بعد حکومت نے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کیں جس کے باعث یہ تعداد کچھ کم ہوئی ہے۔

تاہم بھارتی معیشت پر گرمی کی لہر کے اثرات بہت تشویشناک ہیں جو رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ کے دوران صرف 5.38 فیصد کی شرح سے بڑھی ہے، دو سالوں میں پہلی بار بھارتی معیشت کی شرح نمو چین سے کم ہوئی ہے۔

بھارتی معیشت پر منفی اثرات کی وجوہات میں لوگوں کا غیرروایتی شعبوں میں کام کرنا ہے، ان میں تعمیرات اور فارمنگ کے شعبے شامل ہیں، جب گرمی پڑتی ہے تو یہ لوگ کام چھوڑ دیتے ہیں۔

بڑھتا ہوا درجہ حرات غربت میں کمی کرنے کی حکومتی کاوشوں میں بھی رکاوٹ بن جاتا ہے کیونکہ اس کے باعث لوگوں کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

گزشتہ برس برطانیہ کے طبی جریدے میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق 2012 کے مقابلے میں 2016 میں 4 کروڑ زیادہ افراد شدید گرمی سے متاثر ہوئے ہیں۔

اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صرف بھارت میں 2017 کے دوران شدید گرمی کے باعث 75 ارب گھنٹے ضائع ہو گئے جو عالمی سطح پر ضائع ہونے والے 153 ارب گھنٹوں کا تقریباً نصف بنتا ہے۔ بھارت میں وقت کے اس نقصان کا 80 فیصد صرف زراعت کے شعبے سے تعلق رکھتا تھا۔

عالمی لیبر تنظیم (آئی ایل او) کی پیر کے روز شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2030 تک بھارت شدید گرمی کے باعث اپنے کام کرنے والے گھنٹوں کا 5.8 فیصد ضائع کر رہا ہو گا۔ عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) کے نتیجے میں دنیا میں 8 کروڑ ملازمتیں ختم ہو جائیں گی جن میں صرف بھارت میں 3 کروڑ چالیس لاکھ ملازمتیں شامل ہوں گی۔

بھارت میں بیروزگاری کا مسئلہ بہت پرانا ہے، گزشتہ برس اس کی شرح 6.1 فیصد تک پہنچ گئی تھی جو 45 سال میں پہلی بار ہوا ہے۔

2017 میں حکومت نے انکشاف کیا تھا کہ شدید گرمی کے باعث بھارتی معیشت کو 9 سے 10 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان ہوتا ہے۔

1991 میں بھارت نے اپنی منڈیوں کو بیرونی دنیا کے لیے کھولنا شروع کیا اور اس وقت سے اب تک بھارتی معیشت کے حجم میں 9 گنا اضافہ ہو چکا ہے لیکن آئی ایل او کے مطابق اس کی ورک فورس کا 81 فیصد حصہ اب بھی غیرروایتی شعبے میں تعلق رکھتا ہے۔

2015 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اڑیسہ کی ریاست میں رواں برس غیرروایتی شعبوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا 15 فیصد وقت حدت کے باعث ضائع ہو گیا۔

اسی تحقیق میں بتایا گیا کہ گرمی کے دنوں میں کم آمدنی والے افراد نے 90 سے 100 بھارتی روپے اضافی خرچ کیے۔

انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک گروتھ کے ماہر اقتصادیات سودامنی داس کا کہنا ہے کہ 2020 تک گرمی کی لہر والے دن 2.5 گنا بڑھ جائیں گے جب کہ 2030 تک ان کی تعداد 3.5 گنا بڑھ جائے گی، اس وجہ سے کم آمدنی والے ممالک کے مزدور طبقے کے لیے مشکلات بڑھیں گی۔

توانائی، ماحولیات اور پانی کی کونسل (سی ای ای ڈبلیو) کی تحقیقات کے مطابق گرمی کی شدت کے باعث بھارت کے کسانوں کی پیداواری صلاحیت میں دو فیصد کمی آئے گی جس سے کروڑوں مزدوروں کا روزگار متاثر ہو گا۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کی حال ہی میں جاری رپورٹ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر عالمی حدت کا رجحان اسی طرح جاری رہا تو اس کے خوفناک نتائج نکلیں گے۔ رپورٹ کے مطابق گلوبل ورامنگ سے بھارت دنیا کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک ہے۔

سی ای آئی سی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں مزدور طبقے کی پیداواری صلاحیت 2010 تک اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی تاہم اس کے بعد اس میں مسلسل کمی آئی ہے۔

1991 کی اصلاحات کے بعد مینوفیکچرنگ کے شعبے کی ترقی کی شرح بہت سست رہی ہے، حکومتی اعداد وشمار کے مطابق کارخانے بھارت کی معاشی پیداوار میں صرف 17 فیصد کا حصہ ہے جو کہ زرعی شعبے سے تھوڑا سا کم ہے۔

چین اور ایشیا کی دیگر ابھرتی معیشتوں نے مزدوروں کو کھیتوں اور تعمیراتی مقامات سے کارخانوں اور دفتروں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے برعکس بھارت نے مینوفیکچرنگ کے بجائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بہت اعلی سطح کی ملازمتوں کی طرف توجہ دی ہے جس کے باعث کم تعلیم یافتہ طبقے کی بہت بڑی تعداد کے لیے روزگار کے مواقع سکڑتے جا رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں