سپر ہیرو ’ایدھی بابا‘ کی تیسری برسی

سپر ہیرو ’ایدھی بابا‘ کی تیسری برسی

اسلام آباد: موجودہ ڈیجیٹل عہد میں جب سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا دور دورہ ہے تو اکثر برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چرچل کا یہ قول شیئر کیا جاتا ہے کہ ’’آپ اپنی منزل پر کبھی نہیں پہنچ پائیں گے اگر راستے میں بھونکنے والے ہر کتے کو پتھر ماریں گے‘‘۔

آج کی نئی نسل کو یہ قول تو یاد ہے لیکن انہیں نہیں معلوم کہ 1930 کی دہائی میں عبدالشکور نامی ایک شخص نے اپنے کم عمر بیٹے کو ایسی ہی نصیحت کی تھی کہ ’’ مخالفین کو نظر انداز کرو اوراپنی مہم جاری رکھو‘‘۔

کم عمر بیٹے نے باپ کی اس نصیحت پہ ساری زندگی عمل کیا اور دنیا کے لیے ایک مثال بن گیا۔

عبدالشکور کی اہلیہ نے اپنے بیٹے کی تربیت اس انداز سے کی کہ روز اسکول جانے کے لیے اسے دو آنہ دیتے ہوئے کہتی تھیں کہ ایک آنہ تمھارے لیے اور ایک آنہ کسی ضرورت مند کے لیے ہے۔

بھارتی ریاست گجرات کے علاقے بانٹوا میں رہنے والے ایک ’غیر معروف‘ عبدالشکور کی اہلیہ کی یہ نصیحت بھی بیٹے نے ’پلے سے باندھ لی‘ اور پھر ایسی باندھی کہ 1997 میں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے اعتراف کیا کہ پوری دنیا میں ایمبولینس سروسز کا سب سے بڑا فلاحی بیڑا ایدھی فاؤنڈیشن کا ہے۔

پاکستان کے ممتاز ترین تعلیمی ادارے ’آئی بی اے‘ سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری حاصل کرنے والے عبدالستار ایدھی آٹھ جولائی 2016 کو دار فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

جس روز اس مرد قلندر نے داعی اجل کو لبیک کہا اس دن پاکستانی ذرائع ابلاغ نے لکھا کہ ’’خدمت، محبت، سچائی دنیا سے رخصت، ممتاز سماجی رہنما و ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ عبدالستار ایدھی طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے‘‘۔ یہ اپنے عہد کے ایک بڑے ’انسان‘ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک ’انداز‘ تھا۔

حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں پورے سرکاری اور فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا۔ ان کو 19 توپوں کی سلامی دی گئی اور میت کو گن کیرج وہیکل کے ذریعے جنازہ گاہ تک لایا گیا۔

پاکستان کی تاریخ میں ان سے قبل بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور پاک فوج کے سربراہ و صدر مملکت جنرل ضیاالحق کی تدفین اس طرح کی گئی تھی۔

عبدالستار ایدھی کے متعلق یہ کہنا قطعی غلط نہیں ہے کہ ان کی ہر سانس دکھی و تکلیف زدہ انسانیت کی مدد کے لیے وقف تھی۔ وہ ناداروں و ضرورت مندوں کی کفالت کرتے تھے تو لاوارث بچوں کو گوشہ آفیت مہیا کرتے تھے۔

انہوں نے ایسے بزرگوں کو گھر فراہم کیا تھا جنھہیں ان کی اپنی اولاد ’بوجھ‘ محسوس کرتی تھی۔ وہ ان مریضوں کے ساتھ خوش و خرم رہتے تھے جو کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا تھے اور یا پھر پیدائشی طور پر ذہنی معذور تھے۔

انسان تو انسان، عبدالستار ایدھی نے سپرہائی وے پر ایسے جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے بھی باقاعدہ اسپتال اور رہائش کا بندوبست کیا ہوا تھا جنہیں ان کے مالکان ناکارہ یا بیمار دیکھ کر سڑکوں پہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔

یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی میں فلاح انسانیت کے حوالے سے جتنے بھی کام انجام دیے اس میں ان کی بھرپور اورمکمل مدد و معاونت ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی نے کی۔

گجرات کے ایک میمن خاندان سے تعلق رکھنے والے عبدالستار ایدھی نے قیام پاکستان کے بعد ہجرت کی اور میٹھادر کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ گیارہ سال کی عمر تھی جب ان کی والدہ کو فالج ہوا تو انہوں نے گزر بسر کے لیے دھاگے اور پنیوں سمیت دیگر اسی طرح کی چھوٹی موٹی اشیا شہر قائد کی گلیوں میں فروخت کیں۔

ادھوری تعلیم، والدین کی وفات اور غربت سمیت دیگر وہ تمام مسائل ان کے دامن گیر رہے جس سے دنیا کے بے پناہ افراد دوچار ہوتے ہیں لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اوردکھی انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنالیا۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے نام سے ایک بڑا فلاحی ادارہ قائم کرنے والے ڈاکٹر عبدالستارایدھی نے اپنے فلاحی کام کا باقاعدہ آغاز 1951 میں چھوٹی سے ڈسپنسری قائم کرکے کیا تھا جو صرف پانچ ہزار روپے سے شروع ہوئی تھی۔ 1957 وہ سال تھا کہ جب کراچی میں ’فلو‘ وبا کی صورت اختیار کرگیا تو وہ نہ صرف لوگوں کی مدد کے لیے اپنے علاقے سے باہر نکلے بلکہ انہوں نے گلیوں میں جا کر لوگوں سے اس ضمن میں امداد بھی اکھٹی کی جو فاؤنڈیشن کا نقطہ آغاز ثابت ہوئی۔

کسی بھی فلاحی ادارے کے پاس موجود سب سے بڑے ایمبولینس سروسز کے بیڑے کی ابتدا اس طرح ہوئی تھی کہ ایک کاروباری شخص نے انہیں 20 ہزار روپے دیے تو اس سے انہوں نے پرانی وین خریدی جسے ورکشاپ لے جا کر ایمبولینس کی شکل دی اور یوں ایمبولینس سروسزکا وہ سفر شروع ہوا جو ان کی وفات کے بعد بھی جاری ہے۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی کے پیش نظر ہمیشہ انسانیت کی خدمت رہی۔ وہ اس ضمن میں رنگ، نسل، مذہب اور قومیت پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اس حوالے سے ان کی زندگی میں بہت تنقید ہوئی اور لوگوں نے سنگین نوعیت کی الزام تراشیاں بھی کیں مگر ان کو ہمہ وقت اپنے والد کی نصیحت یاد رہی۔ وہ ہمیشہ اپنے کام میں مگن رہے۔

جب انہوں نے نومولود بچوں کو کچرے کے ڈھیر پہ پھینکنے کے متعلق سنا اور دیکھا تو انہوں نے تمام ایدھی سینٹرز پر جھولے رکھوا دیے جن پر تحریر تھا کہ ’’ قتل نہ کریں، جھولے میں ڈال دیں‘‘۔

جھولوں کی وجہ سے ہزاروں جانیں بچیں کیونکہ اس سے قبل نومولود بچے سخت گرمی، بھوک، پیاس، شدید ٹھنڈ کے سبب چند سانسیں لے کر ہی انتقال کرجاتے تھے اور یا پھر جانور ان کو چیر پھاڑ دیا کرتے تھے۔

نومولود بچوں کو گود لینے پر بھی انہیں سخت نکتہ چینی کا نشانہ بنایا گیا مگر وہ حسب عادت مسکراہٹ کے ساتھ اپنے مشن میں مصروف رہے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب بچوں کو شناختی کارڈ کے لیے ’والد‘ کے نام کی ضرورت پڑی تو انہوں نے کہا کہ ان کا نام لکھ دیا جائے۔

اپنے مخصوص شلوار قمیض اور داڑھی کے سبب علیحدہ شناخت رکھنے والے عبدالستار ایدھی کی سوانح حیات میں درج ہے کہ 1962 میں بنیادی جمہوریت کے انتخابات میں انہوں نے حصہ لیا اور کامیاب ہوئے لیکن جب صدر ایوب خان نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف انتخابات جیتنے کا جشن منایا تو وہ اس میں شریک نہیں ہوئے ۔

عبدالستار ایدھی نے 1970 کے انتخابات میں بھی حصہ لیا لیکن وہ رائے عامہ کو اپنے حق ہموار نہ کرسکے جس کی وجہ سے انہیں انتخابات میں کامیابی نہیں ملی۔

ڈاکٹر عبدالستار ایدھی نے بعد میں اپنے متعدد انٹرویوز میں اعتراف کیا کہ سیاست میں جانا ان کی غلطی تھی۔ انہوں نے فلاحی کاموں کے لیے سرکاری امداد نہیں لی اور ازخود ملنے والی حکومتی امداد واپس کردی۔

وہ عوام الناس کے پاس براہ راست جاتے تھے اور لوگ ان کی دل کھول کر فلاحی کاموں کے لیے مدد بھی کیا کرتے تھے۔

ڈاکٹر عبدالستار ایدھی کی عظیم خدمات کے اعتراف میں جہاں انہیں بے پناہ اعزازات سے نوازا گیا وہیں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یادگاری سکہ جاری کیا جو 50 روپے مالیت کا تھا۔

یادگاری سکوں کی تعداد 50 ہزار تھی۔ پاکستان میں اب تک کل پانچ شخصیات سے منسوب سکے جاری کیے گئے ہیں۔

درج بالا سطور میں تحریر کیا ہے کہ موجودہ ڈیجیٹل عہد میں مغربی قول ہماری نئی نسل کے لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہو گیا ہے کیونکہ انہیں اپنے اسلاف سے آگاہی ہی نہیں ہے۔ اسی طرح نئی نسل کے پسندیدہ کیرکٹرز اسپائیڈر مین، بیٹ مین، آئرن مین اور سپر مین بن گئے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ہمارے ادب میں داستان الف لیلیٰ، ٹارزن کی کہانی، امیر حمزہ، عمرو عیار، ملا دو پیازہ، ملا نصیرالدین اور شیخ چلی جیسے شہرہ آفاق کیرکٹرز شامل ہیں۔

قطع نظر اس بات کے کہ ہیری پورٹر سے واقفیت اور عمران سیریز و انسپکٹر جمشید سیریز سے عدم واقفیت کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ سپر ہیروز کے طور پر ہمارے بچے مغربی کیرکٹرز سے زیادہ متاثر ہیں۔

اس تلخ حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے السٹریشن کی شوقین پاکستانی ماریہ ریاض نے عبدالستار ایدھی کو ’سپر ہیرو‘ کے طور پر متعارف کرایا ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی ماریہ سلطان نے ’ایدھی بابا‘ کے نام سے خاکوں پر مبنی کتاب ترتیب دی ہے جو انہوں نے فروخت کے لیے آن لائن پیش کی ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے ماریہ سلطان نے بتایا کہ انہوں نے اپنی کتاب کے ذریعے بتایا کہ ایدھی بابا کتنے سادہ طبیعت اور کس قدر رحمدل تھے؟ وہ کہتی ہیں کہ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ عبدالستار ایدھی کی ساری طاقت ان کے دل میں تھی جس کی وجہ سے وہ انسانیت کی خدمت کرتے تھے اور اچھائی کو فروغ دیتے تھے۔

ماریہ سلطان اس حوالے سے آئندہ بھی کتب ترتیب دینے کا ارادہ رکھتی ہیں تاکہ بچوں کو اپنے سپر پیرو کے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہی مل سکے۔

انسانیت کی خدمت پر یقین رکھنے والے ڈاکٹر عبدالستارایدھی بیشک ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن دنیا سے رخصت ہوتے وقت وہ اپنی آنکھیں عطیہ کرگئے تھے جو یقیناً آج بھی انسان کو دکھ، تکلیف، پریشانی اور مصیبت میں دیکھ کر تڑپ جاتی ہوں گی لیکن جب فیصل ایدھی کی سربراہی میں ایدھی فاؤنڈیشن کو پوری تندہی سے مشن کی تکمیل میں دیکھتی ہوں گی تو کسی قدر پرسکون ضرور ہوتی ہوں گی۔


متعلقہ خبریں