نوازشریف کے کیلئے گھر سے مضر صحت کھانا آرہا تھا، میڈیکل بورڈ


لاہور: کوٹ لکھپت جیل میں قید نواز شریف کے چیک اپ اور خوراک کی تجویز کے لیے بنائے گئے میڈیکل بورڈ نے بتایا کہ سابق وزیراعظم کے لیے گھر سے مضرصحت کھانا آرہا تھا۔

ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب ڈاکٹر شہباز گل نے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے بتایا  کہ نوازشریف کے کھانے میں نمک اور پروٹین کی مقدار کم کروائی گئی ہے چکنائی سے پر ہیز کرنے کا کہا گیا ہے۔

طبی ماہرین نے نوازشریف کو ناشتے میں پھل اور جوس تجویز کیے ہیں، دوپہر میں سبزی کیساتھ مٹن کی مخصوص مقدار اور روٹی تجویز کی گئی۔

سابق وزیراعظم کو ڈاکٹرز نے روزانہ ورزش کرنے کا مشورہ دیا جب کہ بلڈ پریشر اور شوگر کیلیے ادویات بھی تجویز کی ہیں۔

پنجاب حکومت کے ترجمان نے کہا کہ نوازشریف عدالت سے سزایافتہ ہیں، حکومت جیل مینؤل کے مطابق سہولیات فراہم کرے گی اور یہاں گھر کے کھانے کی اجازت نہیں ہے۔

میڈیکل بورڈ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نوازشریف اگر چاہیں تو پاکستان میں کہیں سے بھی اپنے مزید ٹیسٹ کروا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر شہباز گل نے بتایا کہ کوٹ لکھپت جیل میں قید سابق وزیراعظم کا باقاعدگی سے چیک اپ کیا جارہا ہے اور 21 کارڈیالوجسٹ بھی تعینات ہیں۔

خیال رہے کہ کوٹ لکھپت جیل میں قید سابق وزیراعظم نوازشریف کو گزشتہ روز سے جیل کا کھانا دیا جا رہا ہے اور انہوں نے کھانے سے انکار بھی نہیں کیا۔

ذرائع نے ہم نیوز کو بتایا کہ گھر کے کھانے پر پابندی کے بعد سابق وزیراعظم نے بھی عام  قیدیوں والا کھانا کھایا اور ان کی پرہیزگاری سے متعلق بھی محکمہ داخلہ کے حکام سے رابطہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کی بھوک ہڑتال کی دھمکی

ذرائع کے مطابق قیدیوں کو ہفتہ میں چھ روز گوشت دیا جاتا ہے، ایک روز سبزی اور دو روز دالیں بھی مینیو کا حصہ ہیں۔ ناشتے میں تمام قیدیوں کو انڈہ پراٹھا، آلو انڈے کا سالن اور ڈبل روٹی کے ساتھ انڈہ دیا جاتا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے گزشتہ روز ٹوئٹ کیا تھا کہ حکومت نے نواز شریف کے گھر کے کھانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

ن لیگ کی نائب صدر نے کہا تھا کہ ان ظالموں پر مجھے بھروسہ نہیں ہے، یہ میاں صاحب کے کھانے میں کچھ بھی ملا سکتے ہیں۔

انہوں نے اس پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہاں سے بھی انصاف نہ ملا تو جیل کے باہر بھوک ہڑتال کی جائے گی اور اس بات کو دھمکی نا سمجھا جائے میں یہ کر گزروں گی۔


متعلقہ خبریں