صدر پاکستان لگانا عدالت کا کام نہیں،چیف جسٹس پاکستان


سپریم کورٹ نے صدارتی الیکشن 2002 کے امیدوار میجر ریٹائرڈ فیصل نصیر کی نظر ثانی درخواست خارج کردی۔

چیف جسٹس پاکستان نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ میجر صاحب آپ کب بلامقابلہ پاکستان کے صدر منتخب ہوئے ؟

میجر ریٹائرڈ فیصل نصیر نے کہا وہ 2002 میں بلا مقابلہ صدر پاکستان بنے۔

چیف جسٹس نے کہا 2002 میں تو پرویز مشرف صدرپاکستان  تھے۔

فیصل نصیر نے کہا پرویز مشرف وردی کیساتھ سیاست اور الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے تھے،پرویز مشرف کیخلاف الیکشن کمیشن نے میرا ریفرنس دبا لیا،ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے خلاف میری اپیل بغیر سنے مسترد کردی۔

چیف جسٹس نے درخواست گزار سے پوچھا ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل 2450 دن بعد دائر کی گئی۔ ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد سات آٹھ سال آپ کدھر رہے؟آپ کہتے ہے صدر بن کر آپ دہشت گردی ختم کر دیتے ،ہم سب تو ایسے مسیحا کے انتظار میں رہتے ہیں ۔

فیصل نصیر خان نے دلیل دی کہ عدالت نے آصف زرداری کا بھٹو قتل کیس میں 32 سال پرانا ریفرنس سنا،نواز شریف کی اپیل 8 سال بعد سپریم کورٹ نے سنی۔کیا یہ لوگ زیادہ پیارے ہیں ؟ عدالت میرے حق میں فیصلہ دے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ چھوٹا ریلیف نہیں مانگ رہے،آپ کے حق میں فیصلہ دے دیں تو آپ 2002 میں صدر بن کر 2007 میں اتر بھی گئے۔

درخواست گزار نے کہا میرے حق میں فیصلہ سے پرویز مشرف کے این آر او سمیت تمام اقدامات کالعدم ہو جائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا آپ کہتے ہیں عدالت آپ کو صدر لگا دیں،صدر پاکستان لگانا عدالت کا کام نہیں ہے ،قانون ایسا ریلیف دینے کی اجازت نہیں دیتا۔

عدالت نے صدارتی الیکشن 2002 کے امیدوار میجر ریٹائرڈ فیصل نصیر کی نظر ثانی درخواست خارج کردی۔

یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ: سابق ڈی جی پی ڈی اے کی سزا کیخلاف درخواست خارج


متعلقہ خبریں