شاعر ، افسانہ نگار اور کالم نگار احمد ندیم قاسمی کی تیرہویں برسی



معروف شاعر ، افسانہ نگار اور کالم نگار احمد ندیم قاسمی نے کئی دہائیوں تک قلم کی نوک سے اپنے فن کی دھاک بٹھائے رکھی۔ ادبی افق پر ان کی تحریں آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔ نامور ادیب کی تیرہویں برسی  آج منائی جارہی ہے۔

احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916 کو وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب کے ایک اعوان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ احمد شاہ نام رکھا گیا۔ والد کا نام پیر غلام نبی تھا ۔ احمد شاہ صرف 7 سال کے تھے کہ والد انتقال کر گئے ۔

نامورادیب کی ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی۔ 1920ء میں انگہ کی مسجد میں قرآن مجید کا درس لیا۔ اس کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلے گئےوہاں مذہبی، عملی اور شاعرانہ ماحول میسر آیا۔

احمد ندیم قاسمی نے 1921ء – 1925ء میں گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل اسکول کیمبل پور (اٹک) میں تعلیم پائی۔ 1930ء-1931ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول شیخو پورہ سے میٹرک کیا اور 1931ء صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں داخل ہوگئے جہاں سے 1935ء میں بی اے کیا۔

اپنی طرز کے منفرد شاعر احمد ندیم قاسمی بہاولپور سے لاہور پہنچے تو اختر شیرانی سے ملاقات ہوئی۔ وہ انہیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی کی۔

لاہور میں احمد ندیم قاسمی کی ملاقات امتیاز علی تاج سے ہوئی جنہوں نے انہیں اپنے بچوں کے رسالے پھول کی ادارت سونپ دی۔ ایک سال ادارت کی اور اس دوران بچوں کے لیے بہت سی نظمیں بھی لکھیں ۔ ادب کی دنیا میں قدم رکھا  تو جس صنف میں  طبع آزمائی کی  اسے امر کر دیا۔

قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتداء 1931ء میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ سیاست لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔

1934ء اور 1937ء کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ انقلاب لاہور اور زمیندار لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں اور اس سے انہیں نوجوانی میں ہی شہرت حاصل ہوگئی۔1964ء سے امروز لاہور میں ادبی، علمی اور تہذیبی موضوعات پر ہر ہفتے مضامین لکھتے رہے۔

معروف صحافی اسلم ملک کے مطابق 1936 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے بعد قاسمی صاحب نے اس انجمن سے وابستگی اختیار کر لی تھی۔ وہ انجمن کے سکریٹری بھی رہے۔ اس کی وجہ سے دو مرتبہ جیل بھی گئے۔

جب انجمن ترقی پسند مصنفین شدت پسندی کا شکار ہوئی تو قاسمی صاحب نے اس کی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی لیکن عرصے بعد جب انجمن کا احیأ ہوا تو اس کی نشستوں میں شریک ہوتے رہے۔

احمد ندیم قاسمی نے لفظوں کی بے ساختگی قاسمی کا ایسا خاصہ تھی جس نے دنیائے ادب میں بے شمار انمٹ نقوش چھوڑے ۔

بچوں کے اصلاحی ڈرامے ہوں یا سماجی تبدیلی کی تحریریں ، نثر سے نظم تک ہر لفظ صدائے قاسمی بن کر آج بھی بے شمار لوگوں کے لئے امید کا دیا اور ہمت کا سرچشمہ ثابت ہو رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: صاحب طرز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی

احمد ندیم قاسمی نے  بے شمار ادبی رسائل میں ادارتی فرائض بھی سرانجام دیئے ان کی سترہ سے زائد افسانوی اور چھ شعری مجموعوں سمیت متعدد کتابیں شائع ہوئیں۔

فنی خدمات کے صلے میں احمد ندیم قاسمی کو پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز سمیت متعدد ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا ۔ دنیائے صحافت، فن و ادب کا یہ چمکتا ستارہ دس جولائی دو ہزار چھ کو اپنے مداحوں کو ہمیشہ کے لیے سوگوار چھوڑ گیا۔


متعلقہ خبریں