ٹرمپ انتظامیہ کو ایران سے معاہدے کے لیے کس کا انتظار ہے؟

ٹرمپ انتظامیہ کو ایران سے معاہدے کے لیے کس کا انتظار ہے؟

اسلام آباد: ٹرمپ انتظامیہ اس بات کی خواہش مند ہے کہ وہ ایران سے جو بھی معاہدہ (ڈیل) کرے اسے کانگریس کی ’آشیرباد‘ لازمی حاصل ہو۔ یہ بات امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے ایران برائن ہک نے ممتاز نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کہی ہے۔

برائن ہک نے اس سے قبل العربیہ نیوز چینل کو بھی ایک خصوصی انٹرویو دیا ہے۔

امریکہ اور ایران کے درمیان بیک چینل رابطہ نہیں ہے، برائن ہک کا دعویٰ

اسرائیل کے مؤقر اخبار ’ہیرٹز‘ نے انٹرویو کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سابق امریکی صدر بارک اوبامہ نے ایران کے ساتھ 2015 میں جو جوہری معاہدہ کیا تھا اس میں خامی یہ تھی کہ اسے کانگریس کی منظوری حاصل نہیں تھی۔

اخبار کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ خواہش مند ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جو نیا معاہدہ کرے اسے کانگریس کی منظوری حاصل ہو۔

ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی عندیہ دے چکی ہے کہ وہ 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کے متبادل کے طور پرایک نیا معاہدہ ایران سے کرنے کی خواہش مند ہے۔

موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس جوہری معاہدے پر تین مغربی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے بھی دستخط ہیں۔

اسرائیلی اخبار کے مطابق امریکہ کے خصوصی ایلچی برائن ہک نے اس بات کا بھی عندیہ دیا ہے کہ امریکہ دباؤ بڑھانے کے لیے ایران پر مزید نئی پابندیاں عائد کرے گا۔

ایران کے خلاف کارروائی،کانگریس کی رضامندی سے مشروط نہیں:ٹرمپ

برائن ہک نے الجزیرہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں مؤقف اختیا رکیا کہ اگر عرب ریاستیں متحد و یکجا ہوتیں تو وہ ایران کے خلاف زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتی تھیں۔

دلچسپ امر ہے کہ گزشتہ دنوں جب اسپیکر نینسی پلوسی نے کہا تھا کہ ایران کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کانگریس کی منظوری درکار ہوگی تو امریکی صدر نے اس کی واضح طور پر تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں ایران کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کے لیے کانگریس کی لازمی منظوری درکار نہیں ہے اور وہ اس ضمن میں کلیتاً با اختیار ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرنے کا اختیار انہیں آئین و قانون دیتا ہے۔


متعلقہ خبریں