احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو کام سے روک دیا گیاہے، وزیر قانون



وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کہاہے کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو کام سے روک دیا گیاہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے وزارت قانون کو رپورٹ کرنے کا کہاہے۔تاہم انہیں ہٹانے کی منظوری صدر مملکت دیں گے۔

وزارت قانون کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا خط ملا ہے جس میں جج ارشد ملک کا بیان حلفی بھی لف کیا گیاہے۔ جج ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی میں لکھا ہے کہ انہیں رشوت دینے کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی گئی ہیں۔مبینہ وڈیو اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے خط کے بعد  جج کو کام سے روکا گیاہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ جج کی وڈیو کے حوالےسے کارروائی ہوگی۔ جب تک اس شاخسانے کا کوئی فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ نہیں کرتی تو چاہے وزارت قانون ہو یا کوئی اور اتھارٹی اس پر کچھ نہیں کرسکتی اور نہ ہی کسی کے خلاف سزا وجزا کا فیصلہ ہوسکتاہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملزم کی سزا آٹو میٹک نہ بڑھائی جاسکتی ہے اور نہ ہی ختم کی جاسکتی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ دیکھے گی کہ العزیزیہ کیس کا فیصلہ دباؤ میں دیا گیاہے ۔ یہ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ حکومت قانون کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم کسی کی فیور نہیں کرینگے۔ یہ اجازت بھی کسی کو نہیں دی جاسکتی کہ وہ عدالتوں کو ڈرائے دھمکائے اس حوالے سے قوانین موجود ہیں۔سماعت کے دوران جج پر دباؤڈالنے کے الزام میں دس سال سزا دی جاسکتی ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ مذکروہ جج کی  تعیناتی کیسے ہوئی اس کو بھی دیکھنا ہےکیونکہ مذکورہ جج نے لکھا ہے کہ انکی تعیناتی کرائی گئی ۔ نواز شریف کے خلاف کیس پہلے جج  محمد بشیر کی عدالت میں چل رہا تھا۔ ایک ڈیزائن کے تحت ادھر سے کیس ارشد ملک کے پاس آتا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا جج نے اپنے بیان حلفی میں لکھا کہ انہیں دس کروڑ روپے کی آفر کی گئی ۔ یہ داستان سفارش سے شروع ہوکر لالچ سے ہوتی ہوئی دھمکیوں پر ختم ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ناصر بٹ نے بلیک میل کرکے جج کی ملاقات نواز شریف سے کرائی اس وقت کرائی جب وہ ضمانت پر جاتی امرا میں تھے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ نواز شریف سے ملاقات کے بعد ناصر بٹ جج کوعمرے پر لے جاتا ہے وہاں انکی حسین نواز سےملاقات کراتا ہے۔ بیان حلفی میں جج صاحب لکھتے ہیں کے انہیں حسین نواز نے کہا آپ استعفی دیں اور اپنا ویڈیو بیان جاری کریں۔

بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ جج کو ملتان کی وڈیو دکھائی گئی اور پھر دھمکی دی گئی کہ ہمارا کام کرو ورنہ وڈیو پھیلا دینگے۔ابھی بھی جوڈیشل پراسس پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ابھی بھی کیس کو سیاست سے ہی ڈیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جب تک منی ٹریل نہیں آتی بخشش نہیں ہوسکتی۔

بیرسٹرشہزاد اکبرنے کہا کہ جب تک نواز شریف لندن فلیٹس اور دیگر اثاثہ جات سے متعلق منی ٹریل نہیں دیتے انکی سزا ختم نہیں ہوسکتی۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا جج صاحب کو کام سے روکنے کی وجہ سے فیصلے پر اثر نہیں پڑتا۔ جج کے بیان حلفی سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سارا کام مافیا کا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو ہٹانے کا فیصلہ

جج ارشد ملک کے بیان حلفی میں مزید پردہ نشین بے نقاب

بیرسٹر فروغٖ نسیم نے کہا کہ جج پر دباؤ حکومت کی طرف سے ہوتا تو دونوں کیسز میں سزا دیتے۔ جج صاحب نے دباؤکے باوجود میرٹ پر فیصلہ دیاہے۔ کوئی مجرم ٹھہر گیا اور سزا کاٹ رہاہے تو اسکی سزا ختم نہیں ہوسکتی ۔ آج بھی اگر نواز شریف منی ٹریل دے دیں تو وہ کیسز سے بری ہوسکتے ہیں۔

 


متعلقہ خبریں