’ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ درست نہیں‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے حکومت نے حزب اختلاف کے جواب میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر اچھا فیصلہ نہیں کیا ہے۔

پروگرام ویوز میکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ قانونی لحاظ سے حکومت کوئی بھی طریقہ استعمال کرسکتی ہے لیکن اس کے پیچھے انتقام ہے اس لیے یہ کوئی اچھا جمہوری عمل نہیں ہے۔

تجزیہ کار امتیاز گل نے کہا کہ یہ طاقت کے کھیل کی عکاسی ہے، اپوزیشن کا چیئرمین کی تبدیلی کا فیصلہ بھی اچھا نہیں تھا، جواب میں حکومت نے بھی جو فیصلہ کیا ہے یہ سیاسی تاریخ پر ایک دھبہ ہوگا۔

تجزیہ کار ضیغم خان نے کہا کہ یہ ایسے ہی سیاسی فیصلہ ہے جیسے اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کا کیا ہے۔ تحریک انصاف کی یہی پالیسی رہی ہے کہ جب کوئی ان پر دباو ڈالے تو وہ مزید جارحانہ ہوجاتے ہیں۔

تجزیہ کار شعیب رزاق نے کہا کہ حکومت کو سوچنا ہوگا کہ اس عمل سے جمہوریت کتنی مضبوط ہوگی، یہ اتنے سالوں بعد دوبارہ وہی کھیل کھیلا جا رہا ہے جو ماضی میں کھیلا جاتا رہا ہے۔ چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو بلاجواز ہٹانا اداروں کی تذلیل ہے۔

تجزیہ کار بریگیڈئیر (ر) غغنفرحسین نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ غیرضروری کاموں میں نہ الجھے اور صرف وہ کام کرے جس سے عوام کو فائدہ ہو۔ حکومت کو اصل معاملات پر توجہ دینی چاہیے۔

مولانا فضل الرحمان کے خلاف نیب کی آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیقات کی منظوری سے متعلق سوال کے جواب میں ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ عمران خان کے خلاف الزامات کی فہرست طویل ہے لیکن وہ اس سے مزید جارحانہ ہوجائیں گے۔ ابھی تو تحقیقات کا آغاز ہوا ہے اگر کچھ نکل آیا تو مشکلات پیدا ہوں گی۔

امتیاز گل کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان پہلے بھی مشکل میں ہیں کہ وہ اب حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔ پرویز مشرف نے ماضی میں سیاسی حمایت کے بدلے پرویز مشرف سے بھی فائدے اٹھائے ہیں۔

بریگیڈئیر (ر) غغنفرحسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے اثاثوں اور طرز زندگی کے حوالے سے سوالات موجود ہیں جن کا جواب تحقیقات سے ہی مل سکتا ہے۔

ضیغم خان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان بڑا نام ہیں اور ان کے مدارس کے بچوں کی صورت میں بڑی طاقت موجود ہے۔ ان کی اہمیت اور طاقت بہت زیادہ ہے اور ان کی کوشش ہوگی کہ وہ اس مرحلے سے بھی فائدہ اٹھائیں۔

شعیب رزاق نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو ہر حکومت کا حصہ رہنا اور اس سے فائدہ اٹھانا آتا ہے۔ ان کے ذرائع آمدن کیا ہیں اور اثاثےکتنے ہیں اس حوالے سے تحقیقات کی ضرورت ہے۔

جج ارشد ملک کو ہٹانے کے فیصلے سے متعلق سوال کے جواب میں شعیب رزاق نے کہا کہ جج صاحب کو شوکاز نوٹس دیا گیا ہے، انہوں نے اس کا جواب دیا ہے، مریم نواز نے کوئی اضافی شواہد عدالت میں جمع نہیں کرائے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنا ہے کہ فیصلے کے وقت میرٹ کا خیال رکھا گیا یا نہیں۔

ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ اس حوالے سے متاثرہ پارٹی کو عدالت جانا ہوگا جیسے آصف زرداری کیس میں بے نظیر بھٹو گئی تھیں۔ جج صاحب کی طرف سے بھی جو معاملات ہیں ان سے متعلق شفافیت بھی ضروری ہے۔

امتیاز گل نے کہا کہ یہ اعتراضات ہیں جو زیادہ جج صاحب پر لگے ہیں اس لیے انہیں بھی جواب دینا ہے۔ ضیغم خان نے کہا کہ اس معاملے پر وضاحت کے لیے سب کی نظریں عدلیہ پر لگی ہیں کہ اس کی ساکھ کے حوالے سے سوالات اٹھے ہیں۔

غغنفرحسین کا کہنا تھا کہ تحفظات ختم نہیں ہوئے بلکہ نئے حقائق سامنے آئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر 16 جولائی کو فیصلہ کرنا ہے اس لیے امید ہے کہ معاملے کی وضاحت ہوجائے گی۔


متعلقہ خبریں