’جج کو عہدے سے ہٹانے کے باوجود فیصلے کی عدالتی حیثیت برقرار ‘


اسلام آباد: سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور ماہر قانون کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ بے شک جج کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کا دیا گیا فیصلہ برقرار ہے۔

پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ میں میزبان عامر ضیاء سے گفتگو کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ فیصلے کو برقرار بھی رکھ سکتی ہے اور ختم بھی کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے فیصلے کے بعد کے معاملات کی بات کی لیکن ارشد ملک نے پہلے سے تعلق کا بھی اعتراف کیا ہے جس سے لگتا ہے کہ ان کا کردار زیادہ ہے۔

کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ اگر جج کا تعصب ظاہر ہوجائے تو فیصلہ دوبارہ لکھا جاتا ہے ایسا شعیب ملک اور آصف زرداری کیسز میں ہوچکا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نوازشریف کو ویڈیوز کو ریکارڈ کا حصہ بنوانا چاہیے جیسے بیان حلفی کو بنایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ معاملے کو قالین کے نیچے نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ اس میں جس کا بھی جو کردار ہے، اسے سزا دینی چاہیے کیونکہ عدلیہ کو ثابت کرنا ہے کہ وہ آزاد ہے۔ اگر اس معاملے کو نہ دیکھا گیا تو لوگوں کے اعتماد کو ٹھوس پہنچے گا۔

ماہرقانون  راجہ عامر عباس نے کہا کہ جج ارشد ملک کے اعترافات کے بعد ان کے ضابطہ اخلاق پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں کہ کہیں وہ خود تو اس تنازع کا حصہ نہیں بنے۔ایک جج کے سمجھوتے سے پوری عدلیہ کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کی بات ہورہی ہے تو اس نظام کے خلاف سازش کی گئی ہے۔

راجہ عامر عباس نے کہا کہ ملک قیوم موجودہ جج تھے اور سزا دینے کی بات کررہے تھے جبکہ اس میں اب تک کوئی ریکارڈ سامنے نہیں آئی کہ انہیں کسی نے ایسا کرنے کے لیے حکم دیا۔

نچلی عدلیہ میں سمجھوتہ ہونے، دباو سے فیصلے لینا کوئی بہت بڑی بات نہیں، جج صاحب کو اختلاف تھا تو وہ عہدے سے الگ ہوجاتے، فیصلے کے بعد انہوں نے اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت میں صرف اعتراف ہی کافی نہیں بلکہ اس کا قانون شہادت پر پورا اترنا بھی ضروری ہے۔

راجہ عامر عباس کا کہنا تھا کہ قانونی کیس میں شاہد مدد نہ ملے لیکن جو سیاسی طورپرایک بیانیہ بنا رکھا ہے اس میں فائدہ ہوگا۔ یہ بہت بڑی سازش ہے کہ کیسے اداروں پر دباو ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ماہرقانون آفتاب باجوہ نے کہا کہ عدلیہ کو نقصان پہنچانے کی تاریخ سپریم کورٹ پر حملے اور بے نظیر بھٹو کے خلاف فیصلے سے شروع ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شریف خاندان کے پاس قانونی راستہ موجود ہے کہ وہ اضافی ثبوت جمع کرادیں۔ یہ اپنی کرپشن چھپانے کے لیے سب کو خریدنے کی کوشش کرتے ہیں، جاتی امراء اور سعودی عرب جانے والا جج بھی معصوم نہیں ہے۔

آفتاب باجوہ نے کہا کہ مریم نواز نے پریس کانفرنس کرکے اپنی پارٹی کے لیے مزید مشکلات پیدا کی ہیں، وہاں پر موجود افراد کو پانچ سال سزا بھی ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کی وجہ سے ملک میں قانون کی حکمرانی یقینی بنی ہے، آج ہر ادارہ اپنے کام زیادہ آزادی سے کررہا ہے۔

میزبان عامر ضیاء نے کہا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مریم نواز نے اپنے والد کے لیے مشکلات کم کرنے کے بجائے مزید بڑھا دی ہیں۔ انہوں نے اپنے اختتامیہ میں کہا کہ کسی بھی ملک میں ریاست کی کامیابی کا یہ نشان ہوتا ہے کہ وہاں قانون کی حکمرانی ہو۔


متعلقہ خبریں