سیاستدان و لیڈر کا فرق بتایا تھا،مینڈیلا نے۔۔۔!

غربت کا خاتمہ کیسے؟اور سیاستدان و لیڈر کا فرق بتایا تھا،مینڈیلا نے۔۔۔!

اسلام آباد: سچائی، محبت اور آزادی سے اپنی زندگی عبارت کرنے والے نیلسن مینڈیلا کا آج جب پوری دنیا دن منارہی ہے اور انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کررہی ہے تو تاریخ کے جھروکوں سے مؤقر برطانوی اخبار ’سنڈے ٹائمز‘ یاد آرہا ہے جس نے دعویٰ کیا تھا کہ 1961 میں نیلسن مینڈیلا کی گرفتاری امریکی سی آئی اے کا ’کارنامہ‘ تھی۔

برطانوی اخبار نے یہ دعویٰ اس انٹرویو سے اخذ کیا تھا جو سی آئی ایجنٹ ڈونالڈ رکارڈ کے انتقال سے قبل کیا گیا تھا۔

جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے نیلسن مینڈیلا نے 27 سال کی طویل قید کاٹی تھی۔ انہیں 1990 میں رہائی ملی جس کے بعد ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں وہ صدر منتخب ہوگئے تھے۔

سی آئی اے کے لیے سفارت کار کے روپ میں خدمات سرانجام دینے والے ڈونالڈ رکارڈ 70 کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں متعین رہے تھے۔ ان کا انٹرویو کسی صحافی نے نہیں کیا تھا بلکہ برطانوی فلمی ہدایت کار جان ارون نے لیا تھا۔ یہ انٹرویو اس فلم کے لیے لیا گیا تھا جو ان کی زیرہدایت نیلسن مینڈیلا کی مسلح مزاحمتی تحریک پر بنائی گئی تھی۔ فلم کا نام ’مینڈیلاز گن‘ تھا۔

نیلسن مینڈیلا کی گرفتاری کے وقت انہیں امریکہ اور مغرب میں تشدد پسند بائیں بازو کے خیالات کا حامل رہنما سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت وہ افریقن نیشنل کانگریس کی زیر قیادت چلنے والی مسلح تحریک کی سربراہی کررہے تھے اور مطلوب ترین شخص کے طور پر جنوبی افریقہ میں جانے جاتے تھے۔

جوہانسبرگ میں بی بی سی کی نامہ نگار کارین ایلین نے دیے جانے والے انٹرویو پر اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ اس انٹرویو سے بظاہر وہ شک سچ ثابت ہو جاتا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی سی آئی اے ہمیشہ نیلسن مینڈیلا کا تعاقب کیا کرتی تھی۔

کارین ایلین کا مؤقف تھا کہ سنڈے ٹائمز کی رپورٹ کے بعد سی آئی اے پر اپنی دستاویزات عام کرنے کا دباؤ بڑھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دستاویزات سے یہ بات معلوم ہو سکے گی کہ مینڈیلا کی گرفتاری میں امریکہ کس حد تک شامل تھا ؟ اور اس وقت کی نسل پرست حکومت کی وہ کتنی حمایت کرتا تھا؟

افریقن نیشنل کانگریس کے ترجمان زی زی کڈوا نے ہونے والے انکشاف پر کہا تھا کہ نیلسن مینڈیلا کی گرفتاری کے پس پردہ امریکی خفیہ ادارے کی سازش کی خبرگو کہ خطرناک ہے لیکن یہ کوئی نئی بات ہرگز نہیں ہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ مغربی ممالک اور جنوبی افریقہ کی سابق نسل پرست حکومت کے درمیان گہرا گٹھ جوڑ رہا تھا۔

نیلسن مینڈیلا 1918 کو چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے اور مدیبا قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔

تاریخ میں درج ہے کہ قبیلے نے ان کی پیدائش پر نام ’رولہلاہلا دالب ہگا‘ رکھا تھا لیکن ان کے استاد نے نام تبدیل کرکے نیلسن رکھا جو انگریزی تھا۔ والد کی وفات کے وقت ان کی عمر محض 9 سال تھی۔

قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اپنے دوست اولیورٹیبو کے ساتھ 1952 میں وکالت شروع کی۔ جوہانسبرگ میں قیام کے دوران ان کی دلچسپی کا مرکز نسل پرستانہ جدوجہد کے خلاف جاری تحریک بن گئی۔

ان کی پہلی گرفتاری 1952 میں عمل میں آئی۔ مارچ1960 میں جب شارپ ویل کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کی تو نتیجے میں 69 سیاہ فام ہلاک ہوگئے جب کہ 400 شدید زخمی ہوگئے۔

اس واقعہ نے نہ صرف جنوبی افریقہ میں ایک طرح سے آگ لگادی کہ سیاہ فاموں نے اپنے ’شناختی پاسز‘ جلانے شروع کردیے بلکہ پوری دنیا کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔

نیلسن مینڈیلا کی زندگی پر لکھی جانے والی کتب میں درج ہے کہ اس حوالے سے چلنے والی تحریک کی ابتدا ہی میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور ایک ایسی کوٹھری میں قید کیا گیا جس کے فرش میں رفع حاجت کے لیے ایک سوراخ تھا۔ قید و بند کے دوران انہیں جو کمبل دیے گئے وہ خون اور الٹیوں سے لتھڑے ہوئے تھے۔ کمبلوں پر جوؤں اور رینگنے والے دیگر کیڑوں کا بسیرا تھا۔ بدبو کے بھبھکے اٹھتے تھے کہ سانس لینا محال تھا لیکن یہ مرد آہن نہ جھکا اور نہ دبا۔

نیلسن مینڈیلا کو اس گرفتاری سے رہائی عدالتی فیصلے کے بعد ملی لیکن ملنے والی قید و بند کی صعوبتوں نے ان کی پوری زندگی تبدیل کردی کیونکہ رہائی کے بعد وہ ایک ایسا ’چھلاوا‘ بن گئے جو صرف اندھیرا چھانے کے بعد رات کی تاریکی میں نکلتا تھا اور گرفتاری سے بچنے کے لیے دیگر شہروں کا سفر کرتا تھا مگر مرکز جوہانسبرگ کو بنائے ہوئے تھا۔

نسل پرست حکومت نے ان کی سرگرمیوں سے تنگ آکر ان کے لیے ’کالا جنگلی‘ کا ’کوڈ ورڈ‘ ایجاد کرلیا تھا اور ہر قیمت پر ان کی گرفتاری کو یقینی بنانے کے واضح احکامات دیے جا چکے تھے۔

بھیس بدل کر شہروں کے خفیہ دورے کرنے والے نیلسن مینڈیلا کی زندگی میں متعدد مرتبہ ایسا بھی آیا جب وہ گرفتار ہونے کے قریب تھے لیکن ہر مرتبہ ایسے موقع پر کوئی نہ کوئی سرکاری اہلکار ان کی مدد کر کے انہیں فرار کا راستہ دکھاتا رہا۔ سرکاری اہلکاروں کی آنکھ سے ملنے والے اشارے کے سبب وہ ہر مرتبہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔

سفید فام نسل پرست حکومت کے خلاف نیلسن مینڈیلا نے مسلح جدوجہد کی اور گوریلا تحریک چلائی۔ انہوں نے اسی دوران دنیا کے مختلف ممالک کے دورے کیے لیکن وطن واپسی پر پانچ اگست 1962 کو گرفتار کر لیے گئے۔

نیلسن مینڈیلا پر دو سال تک مقدمہ چلا جس کے بعد انہیں عمر قید کی سزا سنا کر جزیرہ روبن میں قید کردیا گیا جہاں وہ 1982 تک رہے۔ ان سے متعلق تحریر کی جانے والی کتب میں لکھا ہے کہ جہاں انہیں قید رکھا گیا تھا وہ جگہ چند فٹ کے کمرے پر مشتمل تھی۔ اس کمرے میں ایک کھڑکی تھی اور ایک گندا واش روم تھا جب کہ کھانے کے لیے صرف ایک وقت دیا جاتا تھا۔

افریقن نیشنل کانگریس ( اے این سی) نے نیلسن مینڈیلا کی گرفتاری کے باوجود اپنی کارروائیاں جاری رکھیں تو نسل پرست حکومت نے گٹھنے ٹیک دیے۔ انہیں گیارہ فروری 1990 کو رہائی ملی تو 1991 میں وہ اے این سی کے صدر منتخب ہوگئے۔

نیلسن مینڈیلا کو 1993 میں امن کا نوبل انعام دیا گیا جس کے بعد 1994 میں سیاہ فاموں کو برابری کا درجہ دے کر انتخابات کرائے گئے۔ نتیجتاً  وہ بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے۔

جنوبی افریقہ کی تاریخ میں درج ہے کہ 76 سال کی عمر میں جب وہ پہلے سیاہ فام صدر بنے تو انہوں نے تمام مخالفین کو معاف کردیا اور سماجی، معاشی و سیاسی طور پر اپنے معاشرے میں بنیادی تبدیلیاں لائے۔

نیلسن مینڈیلا کے متعلق مشہور ہے کہ جب ایک انٹرویو کے دوران ان سے دریافت کیا گیا کہ سیاستدان اور لیڈر میں کیا بنیادی فرق ہے؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ سیاستدان اگلے انتخابات کے متعلق سوچتا ہے جب کہ لیڈر کی نگاہیں آئندہ نسل پرمرکوز ہوتی ہیں۔

جنوبی افریقہ میں جدوجہد کی شاندار تاریخ رقم کرنے والے نیلسن مینڈیلا نے 1958 میں وینی مینڈیلا سے شادی کی تھی جو 1996 میں ہونے والی طلاق پر ختم ہوگئی تھی۔

مؤقر برطانوی اخبار’میل آن لائن‘ نے وینی مینڈیلا کے موت سے قبل دیے گئے ایک انٹرویو کے حوالے سے لکھا تھا کہ وہ نیلسن مینڈیلا کے متعدد اقدامات سے دلبرداشتہ تھیں کیونکہ ان کے بقول جب انہوں نے دیکھا کہ وہ کئی رعایتیں دے کر ہماری قربانیوں کو رائیگاں کررہے ہیں تو ان میں مایوسی بڑھ گئی۔

وینی مینڈیلا کا الزام تھا کہ نیلسن کی جانب سے دی جانے والی مراعات کے سبب  جنوبی افریقہ کی معیشت پرسفید فام نسل کے کاروباری افراد کا قبضہ ہوگیا۔

نیلسن مینڈیلا کے ساتھ طویل رفاقت کا سفر طے کرنے والی وینی مینڈیلا نے زندگی کے آخری انٹرویو میں زندگی کے چند خفیہ گوشے بے نقاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب نیلسن نے مجھے بتایا کہ وہ نسلی منافرت پھیلانے والے جنوبی افریقہ کے صدر ایف ڈبلیو ڈی کلیرک کے ساتھ امن کا نوبل پرائزشیئر کرنا چاہتے ہیں تو ان کی زبان سے یہ الفاظ سن کر میرے اندر جیسے کوئی چیز مر گئی کیونکہ یہی وہ چیز تھی جس نے ہماری محبت کا گلہ گھونٹ دیا اور شادی کے خاتمے کی راہ ہموار کردی۔

وینی مینڈیلا کا دعویٰ تھا کہ طلاق کی اور کوئی وجہ نہیں تھی۔

جنوبی افریقہ کی جب بھی مکمل تاریخ لکھی جائے گی تو مؤرخ کے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ وینی مینڈیلا کے کردار کو نظرانداز کرکے گزر سکے کیونکہ سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے انہوں نے نیلسن مینڈیلا کے شانہ بشانہ جنگ لڑی اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

ان کی ثابت قدمی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ انہوں نے اپنے خاوند سے علیحدگی اختیار کرنے کے باوجود دو دہائیوں تک اپنی جدوجہد جاری رکھی اور اپنے مقصد حیات میں رتی برابر فرق نہیں آنے دیا۔

الغرض قصہ مختصر! تاریخ ساز نیلسن مینڈیلا سے جب انٹرویو کے دوران بھیانک انداز سے پھیلی غربت کے خاتمے کا فارمولہ دریافت کیا گیا تو دوسروں کے لیے اپنا آپ اور اپنی زندگی قربان کردینے والے حقیقی معنوں میں ’ضمیر کے قیدی‘ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ غربت ختم کرنے کا سب سے آسان، مؤثر اور سستا ترین راستہ یہ ہے کہ فوری اور سستا انصاف مہیا کردیا جائے۔


متعلقہ خبریں