‘ قرارداد منظور ہو جائے تو چیئرمین سینیٹ کو آفس خالی کرنا ہو گا’


اسلام آباد: پاکستان کے ایوان بالا میں اپوزیشن جماعتوں نے  چیئرمین سینیٹ کے نام خط میں لکھا ہے کہ آئین ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی اجازت دیتا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں نے لکھا کہ اگرچیئرمین سینیٹ کے خلاف قرارداد منظور ہو جائے تو انہیں آفس خالی کرنا ہو گا اور آئین میں ایسی  کوئی شق نہیں کہ عدم اعتماد کی قرارداد صدر مملکت کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں منظور کی جائے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کی جانب سے طلب کیا گیا اجلاس بھی معمول کی مطابق ہو گا، صرف ریکوزیشن کا ایجنڈا ترجیح ہو گا، آئین ریکوزیشن کیے گئے اجلاس میں قرارداد عدم اعتماد پیش کرنے پر کوئی قدغن نہیں لگاتا اور اس حوالے سے سابق چیئرمین کی رولنگ پر اعتراض بے بنیاد ہے۔

حزب اختلاف کی طرف سے کہا گیا ہے کہ سابق چیئرمین کی رولنگ ایجنڈا اور آرڈر آف دی ڈے سے متعلق ہے جس میں ترجیح ریکوزیشن کے ایجنڈا کو دی جاتی ہے اور عدم اعتماد سے متعلق قرارداد دیگر قراردادوں اور تحاریک پر فوقیت رکھتی ہے۔

اپوزیشن کی طرف سے لکھا گیا ہے کہ نوٹس جاری ہونے کے بعد سینیٹ کا اجلاس سات روز سے زیادہ ملتوی نہیں کیا جا سکتا، اس سے قرارداد کو فوری نمٹانے کی اہمیت ظاہر ہو جاتی ہے۔

حزب اختلاف کے مطابق چیئرمین سینیٹ کا خط آئین سے متصادم ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ریکوزیشن اجلاس میں قرارداد عدم اعتماد پیش نہیں کی جا سکتی۔

آئین کے مطابق اجلاس اس وقت تک ملتوی نہیں ہو گا جب تک تحریک نمٹا نہیں دی جاتی۔ آئین یہ ابہام دور کر دیتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی قرارداد ریکوزیشن اجلاس میں زیر غور نہیں آ سکتی۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ آئین کی مطابق سیکرٹری سینیٹ کو تحریک عدم اعتماد کو بطور واحد ایجنڈا آئٹم اجلاس پر لانا ہو گا چاہے سینیٹ اجلاس ریکوزیشن پربلایا گیا ہو یا صدر مملکت کی جانب سے طلب کیا جائےلہذا آئین کے مطابق نوٹس کے بعد کے 7 روز کا آغاز ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:حکومت کی اپوزیشن کو چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی تجویز


متعلقہ خبریں