قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات سے قبل کیا نظام تھا؟

این اے 75، انتخابی نتائج روک دیے گئے

خیبرپختونخوامیں نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں پہلی بار صوبائی نشستوں پر عوام حق رائے دہی کے ذریعے اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے۔ اس سے پہلے سابقہ فاٹا میں نمائندے منتخب کرنے کا یہ طریقہ رائج نہیں تھا۔

قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے نئی تاریخ رقم ہورہی ہے۔خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد یہ انتخابات انگریز دور کے کالے قانون ایف سی آر کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گے۔ جہاں قبائلی عوام اپنی مرضی سے قومی اسمبلی کے بعد اب صوبائی اسمبلی کے لئے بھی اپنے نمائندے خودچنیں گے۔

قیام پاکستان سے 1996 تک قبائلی اضلاع میں انگریز کا بالغ رائے دہی نظام رائج تھا۔ جس کے تحت ایم این ایزعوام کے ووٹ سے نہیں آتے تھے۔ بلکہ مقامی عمائدین اور ملک ان کا انتخاب کرتے تھے۔

1996 میں قبائلی عوام کو براہ راست قومی اسمبلی کی 7 نشستوں کے لیے اپنے اپنے نمائندے چننے کا اختیار تو مل گیا تاہم امیدوار آزاد حثیت سے کامیابی کے بعد ایوان میں کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی اختیارکرسکتے تھے۔

2011میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت سیاسی جماعتوں کو قبائلی اضلاع میں عام انتخابات کےلیے تنظیم سازی اور مہم چلانے کی اجازت ملی ۔ 2013 میں عام انتخابات باقاعدہ طور اسی ایکٹ کے تحت منعقد ہوئے۔

2018 میں آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹا خیبرپختونخوا میں ضم ہوا  تو نئی حلقہ بندیوں میں 16 قبائلی صوبائی نشستیں خیبرپختونخوا اسمبلی کا حصہ بن گئیں جس کے بعد اب 20 جولائی کے انتخابات میں قبائلی عوام پہلی بار صوبائی اسمبلی کے لیے 16 نمائندے چننے کا اختیار استعمال کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے: قبائلی اضلاع میں  صوبائی اسمبلی کی 16نشستوں پر انتخابات کل ہوں گے


متعلقہ خبریں