’ملکی ترقی کے لیے این آر او ضروری ہے ‘



اسلام آباد: سابق اٹارنی جنرل اور ماہر قانون عرفان قادر نے ملکی ترقی کے لیے این آر او ضروری قرار دے دیا ہے۔

پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیاء سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان قادر نے کہا کہ وہ مقدمات جن سے کچھ نہیں نکلتا، انہیں باہمی مشاورت سے ختم کردینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ نیب کو آزادی سے کام نہیں کرنے دیا گیا۔ قانون کے برعکس اداروں میں مداخلت کی گئی جس سے پہلے ان کی کارکردگی متاثر ہوئی اور پھر ساکھ ہی ختم ہوگئی۔

عرفان قادر نے کہا کہ نیب کی جن مقدمات کے حوالے سے صلاحیت نہیں ہوتی وہ ان میں بھی ہاتھ ڈال دیتا ہے اور نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے کیونکہ کیس کو عدالت میں ثابت کرنا آسان کام نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کار کے کیس میں اگر عدالت نے مداخلت کرکے ترکی کمپنی کے جہاز نہ روکے ہوتے تو ملک کانقصان نہ ہوتا۔

عدالتوں کو دوسرے اداروں کے کاموں میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے کہ کسی بھی ادارے کے اپنی حدود سے باہر نکلنے پر ملک کا نقصان ہوتا ہے۔

ماہرقانون راجہ عامرعباس کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے پاس اس وقت اپنے مقدمات کے علاوہ بات کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ ان کے رونے کا مقصد احتساب کے جاری عمل سے بچنا ہے کیونکہ اس بار انہیں بھی لگ رہا ہے کہ واقعی احتساب ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ نیب میں صلاحیت نہیں کہ بڑے مقدمات میں تحقیقات اچھے طریقے سے نہیں ہوتیں جس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے اور پھر احتساب کے پورے عمل پر سوالات اٹھ جاتے ہیں۔

راجہ عامر عباس نے کہا کہ ایل این جی کیس میں سیکرٹری پیٹرولیم وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں اور انہوں نے نیب سے کہا ہے کہ وہ اس میں شواہد دیں گے۔ اگر اس سمیت اہم مقدمات کا بروقت فیصلہ نہ ہوا تو حکومت کو بڑا دھچکا لگے گا۔

انہوں نے کہا کہ صلاحتیوں کی کمی کی وجہ سے سزا نہیں ہو پاتی۔ وائٹ کالر کرائم ثابت کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اب یہ شکوہ بھی ختم ہوتا جارہا ہے کہ صرف سیاستدانوں کا احتساب ہوتا ہے کیونکہ ججوں اور جرنیلوں کو بھی سزائیں دی جارہی ہیں۔

راجہ عامر عباس کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار نے نیب کا بجٹ روکا ہوا تھا۔ سابق چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری مسلم لیگ ن کے ان لوگوں سے ملتے رہے جن کے نام ویڈیو اسکینڈل میں سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے کہا نیب کو یاد رکھنا چاہیے کہ تحقیقات عدالتوں میں ہوتی ہیں ہر چیز ٹی وی پر چلوا دینے سے کیس ثابت نہیں ہوجاتا۔

راجہ عامر عباس نے کہا کہ ریکوڈک کا معاہدہ ایسا ہوا تھا جس سے ملک کا نقصان ہونا تھام سپریم کورٹ نے اس معاہدے کو دیکھنا تھا کہ اس میں کیا غلط ہے۔ اس میں بے شک پاکستان کو جرمانہ ہوا ہے لیکن پاکستان کے ذخائر بچ گئے ہیں۔

سابق ڈی جی نیب شہزاد بھٹی نے کہا کہ حکومت کے کچھ وزراء ایسے ہیں جن کے بیانات سے لگتا ہے کہ احتساب نیب نہیں بلکہ حکومت کررہی ہے۔ ان بیانات کی وجہ سے احتساب کا پورا عمل متنازع ہوگیا ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ نیب میں صلاحیت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب کو تحمل سے کام کرنا چاہیے کہ وائٹ کالرکرائم میں جلد تمام حقائق اکٹھے نہیں ہوپاتے۔

شہزاد بھٹی نے کہا کہ نیب کو صرف سابقہ کرپشن نہیں دیکھنی چاہیے بلکہ موجودہ دور میں ہونے والی کرپشن کو بھی روکنا چاہیے تاکہ آئندہ وزراء پر ایسے مقدمات نہ بنیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جس کا انعام کرپشن کو مربوط طریقے سے روکنے کی صورت میں ملے گا۔
سابق ڈی جی نیب نے بتایا کہ کارکے مالک سے نیب کی تین ماہ بات چلی، انہوں نے 17 ملین ڈالر سے زائد کی واپسی پر اتفاق بھی کرلیا تھا لیکن پھر معاملہ عدالت میں جانے کی وجہ سے خراب ہوگیا۔ ترکی کے کمپنی کے عالمی عدالتوں میں جانے سے صرف پاکستان کا ہی نقصان ہوا۔


متعلقہ خبریں