عمران ٹرمپ ملاقات: گھر جلائے گی یا بہتری لائے گی؟


اسلام آباد: سینئر صحافی محمد مالک نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات سے قبل کچھ نہیں کہا جاسکتا اور اس کے نتائج کچھ بھی نکل سکتے ہیں۔

ہم نیوز کے پروگرام’ بریکنگ پوائنٹ ود مالک’ میں ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی ملاقاتوں میں شخصیات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔

سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا امریکہ میں ایک سوچ ابھر رہی ہے کہ پاکستان اور امریکہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 20 سال میں پہلے باری افغان مسئلے پر دونوں ممالک ایک صفحے پر ہیں۔

سابق سیکرٹری خارجہ  کا کہنا تھا کہ پاکستان اس دورے میں ڈالر کو مد نظر نہیں رکھے گا کیوں کہ اتحادی فنڈ نہ ملنا ہمارے لیے مسئلہ نہیں رہا اور ٹرمپ کی دعوت اس بات کی عکاس ہے کہ واشنگٹن اسلام آباد کا اتحادی ہے۔

جلیل عباس جیلانی نے کہا یہ ضروری نہیں کہ دونوں رہنما طے شدہ معاملات پر ہی بات کریں۔ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا جانا اس بات کا غماز ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہیں۔

تجزیہ کار مشرف زیدی نے کہا کہ عمران خان کا دورہ ہی ایک کامیابی ہے، امریکہ کے ساتھ بہت بڑا اتحاد نہیں ہونے جا رہا اور دونوں ممالک اپنے تعلقات بہتر کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات کی بنیاد ہمیشہ سیکیورٹی کی بنیاد پر رہے ہیں۔

بھارتی صحافی ماریہ شکیل نے بتایا کہ بھارت میں اس ملاقات کے نتائج پر نظر رکھی جارہی ہے اگر اس دورے سے پاکستان کی مشکلات کم نہ ہوئی تو ہم سمجھیں گے دورہ بے ثمر رہا۔

انہوں نے کہا  بھارت سمجھتا ہے کہ امریکہ کی موجودہ حکومت پاکستان کی اتحادی نہیں ہے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

ایئر پورٹس پر لازمی پیکنگ کا مسئلہ

سینئرصحافی محمد مالک نے کہا کہ پاکستان میں ایئر پورٹس پر بیگوں پر شاپر اور عوام کے سروں پر ٹوپی پہنائی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نوٹس کے مطابق فیصلہ سینیٹ میں ہوا لیکن ایسا بالکل نہیں ہے، ہم سول ایویشن حکام کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں اور ہمارے پلیٹ فارم پر اپنا موقف پیش کریں۔

محمد مالک نے کہا پاکستان کوئی بنانا ریپبلک نہیں اور ہمیں امید ہے کہ حکام یہ فیصلہ واپس لیں گے کیوں کہ ہم نے اس قسم کے ٹیکس ماننا شروع کر دیے تو پھر سانس لینے پر بھی محصول دینا پڑے گا۔

لاہور ہوائی اڈے  پر بیگز پر شاپر چڑھانے والی کمپنی کے مالک اور دفاعی تجزیہ کار شاہد لطیف نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہمیں نہیں بتایا گیا تھا کہ ہر پلاسٹک بیگز پر شاپر چڑھانا لازمی ہوگا، پوری دنیا میں کسی ایئر پورٹ پر پیکنگ لازمی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت 200 روپے فی بیگ ہیں اور وہ بھی مسافر کی مرضی سے ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس صرف لاہور ایئر پورٹ کا ٹھیکہ ہے اور ہم نے اس کو چیلنج کردیا ہے کہ ہم نے 200 کی پیکنگ کرنی ہے چاہے کوئی کروائے یا نہ کروائے اور ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکومت لازمی قرار دیتی ہے یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام تبدیلیاں ٹھیکداروں اور ایئرلائنز کے علم میں لائے بغیر کی گئیں اور ہم اس کیخلاف عدالت میں درخواست دائر کر چکے ہیں۔

ماہر قانون فیصل نقوی نے ہم نیوز کے پروگرام میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ سول ایوایشن اتھارٹی کے قوانین میں ایسی ہدایات موجود نہیں جبکہ حکام کہتے ہیں کہ ہم نے سامان کی چوری روکنے کے لیے اقدامات کیے۔

انہوں نے کہا کہ حکام اپنے فیصلے کے حق میں بے وقوفوں والی دلیل دے رہے ہیں اور اپنے سسٹم میں چوری روکنے کی بجائے صارفین پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں