’پاکستان کو امریکہ کی ضرورت، امریکہ کو پاکستان کی زیادہ ضرورت ہے‘



اسلام آباد: امریکہ میں سابق سفیراور سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس وقت امریکہ کی ضرورت لیکن امریکہ کو پاکستان کی اس سے زیادہ ضرورت ہے کہ وہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔

پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیاء سے گفتگو کرتے ہوئے شیری رحمان نے کہا کہ وزیراعظم کے اس دورے میں افغان امن عمل فہرست میں سب سے نمایاں ہے۔

افغانستان میں سیاسی و سیکیورٹی پاکستان کی ذمہ داری بنائی جارہی ہے جس سے پاکستان کے لیے مستقبل میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان اس وقت امریکہ والی بات دہرا رہے ہیں کہ بات چیت بھی کریں گے اور لڑائی بھی جاری رکھیں گے۔ پاکستان کا اثر اس معاملے میں محدود ہے۔

شیری رحمان نے بتایا کہ امریکہ ہمیشہ دباو ڈالتا ہے لیکن پاکستان ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق بات سن کر کوئی جواب نہیں دیتا اور یہ کہتا ہے کہ خطے میں پہلے بھارت کو روکیں۔

شیری رحمان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ حال میں رہتی ہے نہ آگے کا سوچتی ہے اور نہ پیچھے کی فکر کرتی ہے۔

سول اور فوجی قیادت کا اکٹھے جانا اچھی بات ہے کہ بات چیت کے لیے سیکیورٹی کا معاملہ سرفہرست ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی قیادت نے دورہ امریکہ سے قبل کسی جماعت کو اعتماد میں نہیں لیا ہے، پاکستان کو ایف اے ٹی ایف، پاک ایران گیس پائپ لائن اور آئی ایم ایف کے حوالے سے مطالبات کرنے چاہیئں۔

تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل(ر)آصف یاسین ملک نے کہا کہ وزیراعظم کے ہمراہ آرمی چیف کا جانا نئی روایت نہیں ہے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان کی قیادت یہ پیغام دے گی کہ افغانستان کے معاملے پر ہم ایک جیسا سوچ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں، امریکہ افغانستان اور سرمایہ کاری کی بات کرے گا جبکہ پاکستان کی ترجیح معیشت ہے۔

آصف یاسین نے کہا کہ ڈونلڈٹرمپ کا ایک انداز ہے کہ وہ دوسروں کی پرواہ کم کرتے ہیں۔ پاکستان کو باور کرانا چاہیے کہ طالبان کو مذاکرات کے لیے میز پر لے آئے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے، اگر امریکہ کو اس معاملے میں ناکامی ہوئی تو بوجھ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ بھارت تعلقات میں گرمجوشی میں کچھ کمی ہوئی ہے، دونوں ممالک کے مفادات کے باعث کچھ اختلافات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
آصف یاسین کی رائے تھی کہ وزیراعظم بھارت کی بات ضرور کریں گے کہ او آئی سی اجلاس میں انہوں نے یہ معاملہ بھرپورطریقے سے اٹھایا تھا تاہم امریکہ سے دباو ڈالنے کی توقع رکھنا مشکل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں آزادی کی 19 تحریکیں چل رہی ہیں اگر وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرے گا تو یہ تحریکیں بھی زور پکڑ لیں گی۔

سابق سفیر غالب اقبال نے کہا کہ امریکہ بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا اور اس دورے میں سب سے اہم معاملہ افغانستان ہے۔ پاکستان کا طالبان پر اتنا اثر نہیں ہے جتنا امریکہ سمجھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان سے فوجی تعلقات رکھتا ہے اور پھر اخبارات میں اس حوالے سے خبریں بھی چلواتا ہے کہ فیصلے فوج کررہی ہے۔

غالب اقبال نے کہا کہ حافظ سعید پاکستان اور امریکہ کا نہیں بلکہ امریکہ اور بھارت کا معاملہ ہے، امریکہ چاہتا ہے کہ اس معاملے پر امریکہ پاکستان پر دباو ڈالے۔ بھارت کو اس وقت افغان امن عمل سے الگ کیا گیا تاہم کسی بھی وقت اسے حصہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو امریکہ کو قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کشمیر کے معاملات سے متعلق بھارت پر دباو ڈالے۔ کشمیر کے جو موجودہ حالات ہیں ان میں 18 ماہ انتہائی اہم ہیں اور پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

ماہرعالمی امور ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ امریکہ کی ترجیح افغانستان ہے کہ وہ وہاں سے نکلنا چاہتا ہے۔ اگر دونوں ممالکی کی قیادت میں اعتماد پیدا ہوگیا تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اختلافات کے باوجود باہمی مفادات بھی ہیں۔

رفعت حسین نے کہا کہ شکیل آفریدی کے معاملے پر بھی بات ہوگی اور اس پر پاکستان کو کہنا چاہیے کہ اس سے امریکہ کا تعلق نہیں ہے، اسی طرح عافیہ صدیقی کو بھی امریکی عدالت نے سزا دی ہوئی ہے پاکستان اس معاملے پر کوئی مطالبہ نہیں کرسکتا۔


متعلقہ خبریں