اداکار محسن عباس اور فاطمہ سہیل کو پولیس نے طلب کرلیا

اداکار محسن عباس اور فاطمہ سہیل کو پولیس نے طلب کرلیا

لاہور: اداکار و گلوکار محسن عباس اور ان کی اہلیہ فاطمہ سہیل کو پولیس نے بیان ریکارڈ کرنے کے لیے طلب کرلیا ہے۔ انہیں ایس پی کینٹ کے دفتر میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ہم نیوز کو پولیس کے ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ فی الوقت دونوں میاں بیوی کے صرف بیانات ہی ریکارڈ کیے جائیں گے۔

ایس پی کینٹ کے مطابق دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کے خلاف تھانہ ڈیفنس سی میں درخواستیں دے رکھی ہیں لیکن تاحال کسی کی بھی درخواست پر کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

ہم نیوز کو پولیس کے ذرائع نے بتایا ہے کہ فاطمہ سہیل نے پولیس کو دی جانے والی درخواست میں اپنے خاوند محسن عباس پر تشدد کرنے اور بچے کا خرچہ نہ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔

اداکار محسن عباس نے اپنے اوپر عائد کیے جانے والے الزامات کی واضح طور پرتردید کی ہے۔

ایس پی کینٹ کا اس ضمن میں مؤقف ہے کہ دونوں میاں بیوی کو سننے کے بعد کارروائی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ کیس کی تفتیش میرٹ پر ہوگی ۔

اداکار و گلوکار محسن عباس نے اپنی اہلیہ کی جانب سے عائد کردہ الزامات پر گزشتہ روز کہا تھا کہ شروعات ان کی طرف سے ہوئی ہیں تو اب میں کھل کر بولوں گا۔

اپنے وکیل کے ہمراہ ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں اس دن کے لیے پہلے سے تیار تھا کیوں کہ مجھے پہلے سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مطمئن ہوں کیوں کہ میں سچا ہوں اور ہر بات قران پاک پر ہاتھ رکھ کر کہوں گا۔ انہوں نے چیلنج دیا تھا کہ اگر وہ بھی سچے ہیں تو قرآن پر ہاتھ رکھ کر بات کریں۔

محسن عباس نے اعتراف کیا تھا کہ یہ ایسی شادی ہوئی ہے جو نہیں ہونی چاہیے تھی کیونکہ میں جس گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں وہاں خواتین کو گھر میں رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ جھوٹ نہیں بولیں گے کیوں کہ جھوٹ کسی بھی رشتے کو کھا جاتا ہے لیکن شادی کے چند دن بعد ہی جھوٹ سامنے آنے لگے تھے۔

اداکارو گلوکار نے کہا کہ اگر فاطمہ سہیل (اہلیہ) کے والد آئیں تو میں ان کو ان کی بیٹی کے متعلق بولا ہوا جملہ یاد کراؤں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب بھی جھگڑا ہوتا تو وہ کبھی اپنے گھر چلی جاتی اور یا کبھی گھر والوں کو بلا لیتی تھی لیکن غلطی نہ ہونے کے باوجود میں منانے جاتا تھا۔

محسن عباس نے کہا کہ فاطمہ سہیل ہمیشہ آدھی کہانی سناتی تھی اورجب میں طلاق نامہ لے کر گیا تو حقائق سامنے آئے۔ انہوں نے تکلیف دہ بات بتاتے ہوئے ذرائع ابلاغ سے کہا کہ بیٹی کی پیدائش سے قبل ان کی اہلیہ کے گھروالوں کی جانب سے پیغام موصول ہوا کہ یہ بیٹی تمھاری نہیں کسی اور کی ہے۔

اداکارو گلوکار نے الزام عائد کیا کہ ان کی اہلیہ فاطمہ سہیل اکثر خود کو مارنا شروع کردیتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ 16 اور 17 جولائی کی شب تقریباً دو بجے میرے گھر کی بیل بجنا شروع ہوئی اورساتھ ہی ایک عورت کے چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں تو میں نے دروازہ نہیں کھولا جس کے بعد ڈرائیور کی مدد سے دروازہ کھلوایا گیا اور میری اہلیہ نے مطالبہ کیا کہ یہ گھر میرے نام کرو۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل وہ کچھ کرتی میں نے وہ گھر چھوڑ دیا۔

محسن عباس نے اپنے وکیل کے ہمراہ ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہا کہ میں نے کسی خاتون کے منہ سے ایسی بات نہیں سنی جو اپنی ساس کے منہ سے سنی۔ ان کا الزام تھا کہ ایک جھگڑے میں ان کے برادر نسبتی (سالے) نے اسلحہ لہرایا اور قتل کی دھمکی بھی دی۔

اداکار و گلوکار کا استفسار تھا کہ اگر میری اہلیہ چارسال تک تشدد سہتی رہی ہیں تو میڈیکل رپورٹ کیوں نہیں آئی؟ ان کا کہنا تھا کہ چار سال کی شادی میں تقریباً ایک سال ہی ساتھ رہے ہیں اور گزشتہ پانچ چھ ماہ سے تو علیحدگی ہے۔

ممتاز اداکار و گلوکار محسن عباس کی اہلیہ فاطمہ سہیل نے اس سے قبل اپنے خاوند پر تشدد کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ظلم برداشت کرنا بھی گناہ ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر انہوں نے اپنی ’بپتا‘ شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ گزشتہ سال نومبر سے ان کے خاوند کسی اور لڑکی میں دلچسپی لینے لگے تھے اور معلوم ہونے پراس وقت انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جب وہ حاملہ تھیں۔

فاطمہ سہیل نے دعویٰ کیا کہ حالت خراب ہونے پر انہوں نے اپنی ایک دوست کو فون کیا جس نے انہیں اسپتال پہنچایا لیکن ڈاکٹرز نے علاج سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ یہ پولیس کیس ہے۔

انہوں نے لکھا کہ میں نے پولیس میں محسن کے خلاف شکایت درج نہیں کرائی اور الٹراساؤنڈ کے بعد بچہ محفوظ ہونے کی نوید سن کر سکھ کا سانس لیا۔ انہوں نے لکھا کہ 20 مئی 2019 کو ایک مشکل آپریشن کے بعد اللہ نے انہیں بیٹے سے نوازا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ جب وہ آپریشن تھیٹر میں تھیں تو اس وقت ان کے خاوند ایک نئی اداکارہ کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہے تھے۔ان کا مؤقف تھا کہ مشکل گھڑی میں ان کے خاندان نے ساتھ دیا جب کہ محسن عباس تو بیٹے کی ولادت کے دو دن بعد محض اس کی تصاویر لینے کی خاطر اسپتال آیا۔

اداکار و گلوکار پر الزام عائد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محسن عباس نے بیٹے کی طرف تو دیکھا تک نہیں البتہ سوشل میڈیا پر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے تصاویر ضرور شیئر کردیں۔

فاطمہ سہیل کے مطابق جب انہوں نے خاوند سے بیٹے کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے کہا تو انہیں تشدد سہنا پڑا لیکن اب میں مزید ظلم برداشت نہیں کرسکتی ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ جسمانی اور ذہنی تشدد سے تنگ آچکی ہیں اور انہوں نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپنی بپتا شیئر کرنے کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ اس لیے کی ہے تاکہ اسی طرح کا رویہ برداشت کرنے والی دیگر لڑکیاں بھی کھل کر سامنے آئیں۔


متعلقہ خبریں