کشمیر : امریکی اور بھارتی پالیسیوں میں تبدیلی کے واضح اشارے

صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کیلئے میدان میں آگئے

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے بھارت میں منعقد ہونے والے لوک سبھا انتخابات سے قبل غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سے وفاقی دارالحکومت میں بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اگر آئندہ حکومت کانگریس کی بنی تو مقبوضہ کشمیر پر معاہدہ کرنا مشکل ہوگا لیکن اگر بھارتیہ جنتا پارٹی جیت گئی تو شاید مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکل آئے‘‘۔

وزیراعظم کی ’دور اندیشی‘ اور ’فہم و فراست‘ کو اس وقت یکسر نظر انداز کرتے ہوئے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں نے کراچی سے خیبر تک ’ہا ہا کار‘ مچائی تھی اورانہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا لیکن گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران عمران خان کے ’سیاسی تدبر‘ کے وہ بھی قائل ہوگئے ہیں جو ماضی میں ان کے بدترین مخالف رہے ہیں اورشاید نام سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔

بھارت میں کانگریس آئی تو کشمیر پر معاہدہ مشکل ہوگا،عمران خان

وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے موقع پر جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کرانے کی پیشکش کی تو بھارتی ذرائع ابلاغ میں حقیقتاً ’کہرام‘ مچ گیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بھارتی ٹی وی چینل نے تو سرخی لگا دی کہ ’’امریکہ نے بھارت پر کشمیر بم گرادیا ہے‘‘۔

بھارتی سیاستدانوں اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے ڈالے جانے والے بے سر و پا شور شرابے سے ’مجبور‘ ہوکر بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر واضح کیا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کبھی بھی امریکی صدر سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست نہیں کی ہے۔

انہوں نے گھسا پٹا روایتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تمام درپیش مسائل پر صرف دو طرفہ بات چیت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں شملہ معاہدے اور لاہور اعلامیہ کا بھی ذکرکیا۔

بیشک! امریکی صدر کے بیان کے فوری بعد بھارتی ذرائع ابلاغ اور سیاسی جماعتوں نے شور شرابہ شروع کردیا تھا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس ضمن میں وضاحت پیش کرے جو وزارت خارجہ کے ترجمان کی جانب سے کرادی گئی لیکن گزشتہ 12 گھنٹوں میں خود بھارت میں سنجیدہ حلقوں کی جانب سے یہ سوالات کیے جانے لگے ہیں کہ کیا بی جے پی کے حکومت اپنی روایتی کشمیر پالیسی میں تبدیلی لا رہی ہے؟ اور کیا امریکہ بھی جنوبی ایشیا کے ’فلیش پوائنٹ‘ کے متعلق ماضی سے ہٹ کر سوچنے لگا ہے؟

ان سوالات نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا سیاسی ’اندازہ‘ درست نکلا کہ بی جے پی کامیاب ہوئی تو مسئلہ کشمیر کا حل نکل سکتا ہے جب کہ کانگریس کی کامیابی کی صورت میں اس حوالے سے مشکلات پیش آئیں گی۔

بھارتی وزارت خارجہ نے ٹرمپ کو جھوٹا قرار دیدیا

درج بالا سوالات دراصل وزیراعظم عمران خان کی ’ سیاسی بصیرت‘ کے عکاس ہیں کیونکہ وہ ثابت کررہے ہیں کہ واقعتاً انتہا پسند قرار دی جانے والی بھارت کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی روایتی سوچ میں تبدیلی آرہی ہے جو مسئلہ کشمیر کے حل میں معاون و مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔

یہاں عالمی سیاسی مبصرین کا یہ تبصرہ قابل ذکر ہے کہ ہمیشہ دنیا کے دیرینہ حل طلب مسائل کا حل ’غیر روایتی‘ طریقے سے ان سیاسی رہنماؤں نے نکالا ہے جو ’سکہ بند‘ روایتی سیاستدان نہیں تھے۔ اس ضمن میں فی الحال ڈونلڈ ٹرمپ، شہزادہ محمد بن سلمان اور عمران خان کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کا شمار بھی خاندانی اور روایتی سیاستدانوں میں نہیں ہوتا ہے۔

بھارت کے مؤقر اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ نے اس ضمن میں خبر کے ساتھ ہی اپنی تجزیاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان سے بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی میں کسی ’خفیہ تبدیلی‘ کے اشارے ملتے ہیں۔

ہندوستان ٹائمز کا یہ تبصرہ ’دال میں کچھ کالا‘ کا واضح عکاس ہے جو مقبوضہ وادی چنار کے باسیوں کے لیے یقیناً ’سفید‘ ثابت ہو گا۔

مقبوضہ وادی کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ اور بھارت نواز نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والی ملاقات سے پیدا شدہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں استفسار کیا کہ ’’ کیا اس بیان پر بھارتی حکومت صدر ٹرمپ کو جھوٹا قرار دے گی؟ اور یا پھر حقیقت میں بھارت نے تیسرے فریق کی ثالثی قبول کرتے ہوئے خفیہ طور پر اپنی روایتی پالیسی تبدیل کر لی ہے؟

سابق وزیراعلیٰ کے اندازے اس لحاظ سے درست ثابت ہوئے ہیں کہ پہلے مرحلے میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکی صدر کو ’جھوٹا‘ قرار دے دیا ہے۔

بھارت کی سابق حکمراں جماعت کانگریس کے ترجمان رندیپ سورج والا نے اس ضمن میں کہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے کسی تیسری طاقت کو ثالثی کی درخواست دینا بھارت کے قومی مفادات کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وزیر اعظم مودی کو اس کا جواب دینا ہو گا۔

بھارت میں ’دائیں بازو‘ کی جانب جھکاؤ رکھنے والے ممتاز بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ نے لگی لپٹی بغیر لکھا ہے کہ ’’ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کی جانے والی پیشکش اس بات کی غماز ہے کہ مسئلہ کشمیر کے متعلق امریکی پالیسی میں بدل رہی ہے‘‘۔

بھارت کے مؤقر نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ نے اس ضمن میں اپنی خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ تیسرے فریق کی ثالثی کی مخالفت کی ہے جب کہ پاکستان نے اقوام متحدہ سمیت کئی بین الاقوامی فورمز پر زور دیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر میں ثالثی کا کردار ادا کریں۔

امریکی صدر کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش، بھارتی میڈیا آگ بگولہ

درحقیقت دیکھا جائے تو مسئلہ کشمیر پر پاکستانی مؤقف کی جیت ہوئی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ازخود ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

بھارت کے ممتاز نشریاتی ادارے ’نیوز 18‘ کے مطابق وزارت خارجہ کی جانب سے کی جانے والی وضاحت کو حزب اختلاف کی جماعتوں نے ناکافی قرار دے کر یکسر مسترد کردیا ہے۔

دلچسپ امر ہے کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی رواں سال ستمبر میں امریکہ کا سرکاری دورہ کرنے والے ہیں۔

بزرگ کشمیری رہنما اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نےمسئلہ کشمیر اٹھانے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے۔

انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر وزیراعظم عمران خان کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ میں اپنی زندگی میں پہلا لیڈر دیکھ رہا ہوں جس نے ہم نہتے کشمیریوں کے لیے آواز اُٹھائی ہے‘‘۔


سید علی گیلانی نے اپنے پیغام میں کہا کہ امریکہ کو کشمیر کی آزادی کے لیے کردار ادا کرنا پڑے گا اور ہم امریکہ میں مسئلہ کشمیر اٹھانے پر پاکستان کے شکر گزار ہیں۔


متعلقہ خبریں