طالبان سے جلد ملاقات ہوگی، عمران خان



واشنگٹن/اسلام آباد: وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے بہت جلد افغان صدر اشرف غنی اور طالبان سے ملاقات ہوگی۔

امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیس کی جانب سے منعقد کی گئی تقریب سے خطاب اور اس کے بعد انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ چند ماہ قبل طالبان مجھ سے ملنا چاہتے تھےلیکن اشرف غنی نے ایسا نہیں ہو دیا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرا روز اول سے یہی مؤقف رہا ہے کہ جنگ افغان مسئلے کا حل نہیں اور امریکہ بھی اس بات رضامند ہو چکا ہے۔

پاک امریکہ تعلقات اسے متعلق پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اب تک دونوں ممالک کے درمیان صرف سیکیورٹی کی وجہ سے رابطہ تھا کہ لیکن ہم اب ہم با وقار اور برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ افغان جنگ میں پہلی بار ٹرمپ اور ہماری حکومت ایک صفحے پر ہیں، پاکستان اپنی بھرپور کوشش کرنے گا کہ ہمسایہ ملک میں امن قائم ہو۔

پاکستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مسئلہ افغان حل کرنے کے لیے سیاسی اور فوج ایک صفحے پر ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں افغانستان کے اندرونی مسائل میں کسی قسم مداخلت نہیں کی جائے گی البتہ قیام امن میں بھرپور معاونت کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں عمران خان کہنا تھا کہ کچھ ہمسایہ ممالک افغانستان میں امن نہیں چاہتے جو کہ غلط ہے خطے کے تمام فریقین کو چاہیے کہ مثبت کردار ادا کریں۔

2013 تک پاک امریکہ تعلقات اتنے اچھے نہیں تھے اور یہ بات تو سبب کو ماننی پڑے گی کہ آپ کو نا چاہتے ہوئے بھی امریکہ کہ ساتھ تعلقات اچھے رکھنے پڑتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزیراعظم نے جواب دیا کہ ہم امریکہ مالی امداد کی غرض سے نہیں آئے کیوں کہ یہ شرمناک عمل ہے اور کوئی بھی قرض لے باوقار نہیں رہ سکتا۔

ماضی میں امریکہ سمجھتا تھا کہ پاکستان کوئی مدد نہیں کر رہا اور ہم کہتے تھے کہ اپنی استعداد سے بڑھ کر تعاون کر رہے ہیں لیکن اب ایسی صورتحال نہیں ہے۔

عمران خان نے واشگاف الفاظ میں کہا افغانستان میں روس کی شکست کے بعد امریکہ نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا اور پاکستان کو مہاجرین، جہادی تنظیموں، فرقہ واریت اور منشیات جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان امریکہ کی ایما پر قبائلی علاقوں میں آپریشن کیا جس کے سنگین نتائج بھگتنے پڑے اور وہاں کے عوام پاک فوج کے مخالف ہوگئے۔

انٹرویو کے دوران وزیرعظم نے کہا کہ ہم نے ٹرمپ سے عسکری امداد نہیں مانگی اور نہ لینا چاہتے ہیں کیوں کہ قرض کسی بھی ملک اور قوم باوقار نہیں بنا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ہم خطے میں قیام امن کی خاطر اپنے ہمسایوں سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، میں نے اپنے بھارتی ہم منصب سے کہا ہے کہ اگرآپ ایک قدم آگے بڑھیں گے تو ہم دو قدم اٹھائیں گے۔

ایران سے متعلق سوال پر پاکستانی وزیراعظم نے کہا کہ اس تنازع سے پیدا ہونے والی تباہی کا کسی کو اندازہ نہیں اور پاکستان پر اس کے بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران پر حملہ ہوا تو ایسی دہشت گردی ہوگی لوگ القاعدہ کو بھول جائیں گے اور یہ صورت حال پیدا نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے پاکستان کی سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ حزب اختلاف کی جماعتیں ملک عدام استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں کیوں کہ تاریخ میں پہلی بار ان کا کڑا احتساب کیا جارہا ہے۔

بدعنوانی سے لوٹا گیا پیسہ نکلوا کر پاکستان میں غربت کے خاتمے، معاشی ترقی اور تعلیم پر خرچ کیا جائے تاکہ ملک میں پائیدار ترقی کی بنیاد رکھی جا سکے۔

ان کا کہنا تھا جب ہمیں حکومت ملی تو ملک معاشی طور پر تباہ تھا لیکن دس ماہ کےدوران پاکستان معاشی بحالی کی طرف چل پڑا ہے اور اب ہماری پارٹی دیگر مسائل پر توجہ دے گی۔


متعلقہ خبریں