بورس جانسن برطانیہ کے لیے ’گورباچوف‘ تو ثابت نہیں ہوں گے؟

طالبان 31 اگست کے بعد انخلا کرنیوالوں کو محفوظ راستہ دینے کی ضمانت دیں، جی سیون

اسلام آباد: برطانیہ میں وزارت عظمیٰ کے منصب کا حلف اٹھانے والے بورس جانسن ایک ایسے سیاستدان ہیں جن کے آباؤ اجداد مسلمان تھے اور وہ خود بیک وقت برطانوی و امریکی شہری ہیں کیونکہ ولادت کے وقت ان کی رجسٹریشن برطانوی اور امریکی قونصل خانوں میں کرائی گئی تھی۔ وہ 19 جون 1964 کو نیویارک کے مشہور زمانہ علاقے مین ہیٹن میں ہوئی تھی۔

بورس جانسن کی بطور وزیراعظم نامزدگی کے ساتھ ہی برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کے سنجیدہ حلقوں میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران نہایت شدت کے ساتھ یہ استفسار کیا جانے لگا ہے کہ کیا برطانیہ جس کے اقتدار میں ایک وقت سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اب ٹوٹ جائے گا؟ اور بکھر جائے گا؟

باالفاظ دیگر کہا جا سکتا ہے کہ مغربی سیاسی مبصرین فی الوقت یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ بورس جانسن برطانیہ کے لیے گوربا چوف تو ثابت نہیں ہوں گے؟

نومنتخب برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی زندگی کے چند مشہور تنازعات

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی ایڈیٹر برائے اسکاٹ لینڈ سارہ اسمتھ نے اسی سوال کا اپنی رپورٹ میں جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اس رپوٹ کا کچھ حصہ ہم قارئین کی دلچسپی اورمعلومات کے لیے شامل اشاعت کررہے ہیں۔

بورس جانسن کی پیدائش کے وقت ان کے والد اسٹینلے جانسن کولمبیا یونیورسٹی امریکہ میں زیر تعلیم تھے لیکن 1969 میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ برطانیہ منتقل ہوگئے تھے جہاں انہوں نے ونفورڈ میں رہائش اختیار کی تھی۔

بورس جانسن 1984 میں آکسفرڈ یونیورسٹی یونین کے صدر منتخب ہوئے تھے اور 1987 سے لے کر 1994 تک بحیثیت صحافی ’ٹائمز‘ اور ’ڈیلی ٹیلی گراف‘ سے وابستہ رہے تھے۔ برطانیہ کے بااثر حلقوں میں عام تاثر ہے کہ اس زمانے میں ان کے مضامین کنزرویٹو پارٹی کی شکست کا سبب بنے تھے حالانکہ کنزرویٹو پارٹی کی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر ان کے مضامین کو بے حد سراہتی تھیں مگر وزیراعطم جان میجر سخت ناقد تھے اور جھجھلاہٹ کا شکار ہوجاتے تھے۔

دلچسپ امر ہے کہ جس سیاسی جماعت کو ان کے تنقیدی مضامین کی وجہ سے 1997 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، اسی جماعت نے 2019 میں انہیں وزارت عظمیٰ کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا۔

بورس جانسن بحیثیت صحافی، بحیثیت سیاستدان اور بحیثیت ایک انسان متعدد تنازعات کا نشانہ بنے کیونکہ کبھی انہوں نے کچھ قابل اعتراض جملوں کا استعمال کیا تو کبھی اپنا ’عشق‘ چھپانے کی کوشش کی۔ وہ مسلمانوں کی جانب سے بھی تنقید کی زد میں رہے کیونکہ نقاب کے حوالے سے ان کے الفاظ قابل گرفت قرار پائے تھے۔

قابل ذکر بات ہے کہ جب گزشتہ دنوں ان کے انتخاب سے قبل اس ضمن میں مباحثے منعقد ہورہے تھے تو انہوں نے ازخود اپنے دفاع میں بتایا کہ ان کے آباؤ اجداد مسلمان تھے۔ ان کے انکشاف پر ایک نئی بحث کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

2016 میں انہوں نے برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی بریگزٹ مخالف پالیسی کے ناقد تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ متحدہ یورپ کی صورت میں’رومن سلطنت‘ قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔


برطانوی سیاست میں غیر روایتی اور متنازع سمجھے جانے والے بورس جانسن کی نامزدگی پر امریکہ کے غیر روایتی اور متنازع تصور کیے جانے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مبارکباد پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ وہ اچھے وزیراعظم ثابت ہوں گے۔

برطانوی اخار ’گارڈین‘ نے  لکھا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ بورس جانسن برطانیہ میں اس لیے مقبول ہیں کہ وہ وہاں کے ٹرمپ دکھائی دیتے ہیں اور واقعتاً ایسا ہی ہو گیا۔

بی بی سی کی سارہ اسمتھ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسکاٹش کنزرویٹیو پارٹی کے مخالفین کو خدشہ ہے کہ بورس جانسن کی نامزدگی سے برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کا اتحاد خطرے میں پڑ سکتا ہے اور بات علیحدگی تک بھی پہنچ سکتی ہے۔

ٹوری پارٹی کے رہنما بورس جانسن کا اپنی گرل فرینڈ سے جھگڑا، پولیس طلب

ان کا کہنا ہے کہ مبصرین کا خیال ہے کہ بورس جانسن کی نامزدگی کو اسکاٹ لینڈ کے رائے دہندگان انگلش اشرافیہ اور حکمران طبقے کی علامت کے طور پر دیکھیں گے اور انہیں اسکاٹ لینڈ کے لوگ پسند نہیں کرتے ہیں۔

بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسکاٹ لینڈ یورپی یونین میں رہنے کا حامی ہے لیکن اس کا مسئلہ یہ ہے کہ  اسکاٹ لینڈ میں بغیر معاہدے کے بریگزٹ کا خیال اتنا پسند نہیں کیا جاتا ہے جتنا باقی برطانیہ میں کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر بورس جانسن ایسی بریگزٹ پالیسی اپناتے ہیں جو اسکاٹ لینڈ میں پسند نہیں کی جاتی تو ممکن ہے کہ وہاں کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ اب مزید برطانیہ کا حصہ رہنا ان کے مفاد میں ہے یا نہیں؟

بی بی سی کی رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ عوامی سروے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یورپی یونین سے بغیر کسی معاہدے کے علیحدگی کی صورت میں اسکاٹ لینڈ میں 60 فیصد رائے دہندگان برطانیہ سے آزادی کے حق میں رائے دیں گے۔

برطانیہ سے علیحدگی کے متعلق سارہ اسمتھ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسکاٹ لینڈ میں لوگوں کی امنگیں اور خواہشات برطانیہ کے دیگر علاقوں سے مختلف ہیں اور انھیں موجود یونین میں ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

بی بی سی نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے منتظر بورس جانسن کو مشورہ دیا ہے کہ اگر برطانیہ کو یکجا رکھنا ہے تو انہیں موجود شعلوں کا بجھانا ہو گا۔


متعلقہ خبریں