دورہ پاکستان کی دعوت ملی تو قبول کریں گے ، افغان طالبان

تمام غیر ملکی افواج کے انخلا تک کسی بھی کانفرنس میں شرکت نہیں کرینگے، افغان طالبان

قطر: افغان طالبان نے واضح کیا ہے کہ اگر پاکستان کی جانب سے دورے کی رسمی طور پر دعوت ملی تو ایک وفد جائے گا جو وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کرے گا۔ افغان طالبان نے پہلی مرتبہ افغان حکومت سے بھی ایک فریق کی حیثیت سے مذاکرات کرنے کا عندیہ دیا۔

برطانیہ کے نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ سے بات چیت کرتے ہوئے افغان طالبان کے سیاسی دفتر واقع دوحا، قطر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ ہم تو خطے اور ہمسایہ ممالک کے دورے وقتاً فوقتاً کرتے ہیں تو اگر ہمیں پاکستان کی طرف سے رسمی دعوت ملتی ہے تو ہم جائیں گے کیونکہ پاکستان بھی ہمارا ہمسایہ اور مسلمان ملک ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے دورہ امریکہ میں کہا تھا کہ وہ طالبان سے ملیں گے تاکہ وہ افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار ہو جائیں۔

طالبان سے جلد ملاقات ہوگی، عمران خان

ایک سوال کے جواب میں انہوں ںے کہا کہ ہم نے افغانستان کے مسئلے کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک بیرونی اور دوسرا اندرونی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں جاری مذاکرات اب اختتامی مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر ہم دوسرے مرحلے میں تمام افغان فریقین سے بات چیت کریں گے جس میں افغان حکومت بھی ایک فریق کی حیثیت سے شامل ہو سکتی ہے۔

بی بی سی کی جانب سے جب ان سے پوچھا گیا کہ طالبان پرتو پہلے ہی یہ الزام ہے کہ وہ پاکستان کی پراکسی ہیں تو کیا اس دورے سے اندرون ملک و بیرون ملک مزید الزامات نہیں لگ جائیں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جن کے پاس طالبان کے خلاف جھگڑے کے لیے کوئی اور دلیل نہیں ہے وہی اس قسم کے الزامات لگائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے الزامات ماضی میں بھی لگا چکے ہیں اور مستقبل میں بھی لگاتے رہیں گے۔

طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ ایک تو ہمارے اسلامی اور قومی مفادات ہیں جن میں ہم کسی کو بھی مداخلت نہیں کرنے دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک دیگر یا ہمسایہ ممالک کے ساتھ روابط قائم کرنے کا سلسلہ ہے تو ہمارے رابطے ہیں اور ہم چاہتے بھی ہیں۔

بی بی سی کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے دورہ امریکہ میں کہا تھا کہ کابل سے اغوا کیے گئے دو غیرملکیوں کی رہائی کے حوالے سے 48 گھنٹوں میں خوشخبری دے سکتے ہیں تو اس کے متعلق پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں طالبان ترجمان نے کہا کہ وہ 48 گھنٹوں کے متعلق تو کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں لیکن ان کی ہر وقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ قیدیوں کے تبادلے ہوں۔

سہیل شاہین نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے لیے قیدیوں کے تبادلے کیے ہیں اور اب بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُس میں اگر کوئی کچھ کردار کرنا چاہتا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔

بی بی سی کے مطابق 62 سالہ امریکی شہری کیون کینگ اور 50 سالہ آسٹریلوی شہری ٹیموتھی جاون کابل میں امریکن یونیورسٹی میں بطور استاد کام کرتے تھے۔ ان کو اگست 2016 میں طالبان نے افغان دارالحکومت کابل سے اغوا کیا تھا۔

طالبان سے آئندہ مذاکرات میں مزید پیشرفت ہوگی ، زلمے خلیل زاد

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق دورہ امریکہ میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اُن سے چند ماہ قبل بھی طالبان وفد ملنا چاہتا تھا لیکن افغان حکومت کی تشویش کی وجہ سے اُنہوں نے ملنے سے انکار کیا تھا۔

بی بی سی کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سال رواں کے ماہ فروری میں ذرائع ابلاغ کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کا ایک وفد پاکستان کا دورہ کرے گا جس میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوگی۔

برطانوی نشریاتی ادارے نے دعویٰ کیا کہ اس وقت اسلام آباد میں قائم افغان سفارتخانے کیے ذرائع نے بتایا تھا کہ انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اگر وزیراعظم عمران خان طالبان وفد کے ساتھ ملتے ہیں تو وہ پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات مؤخر کرلیں گے۔

بی بی سی کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ وزیراعظم عمران خان کے مطابق وہ افغان حکومت کی رضامندی سے مل رہے ہیں تاکہ ان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادہ کرلیں اور آنے والے انتخابات میں حصہ لیں۔


متعلقہ خبریں