این ٹی ایس میں مالی بے ضابطگیوں پر حکومت کی پراسرار خاموشی


اسلام آباد: وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ماتحت کام کرنے والے طلبہ کی جانچ پڑتال کے حوالے سے معروف ادارے نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) میں دو سال قبل بڑے پیمانے میں مالی بےضابطگیوں کا انکشاف ہونے کے باوجود حکومت خاموش ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ’بڑی بات‘ میں بتایا گیا کہ اس ادارے میں 20 ارب روپے سے زائد کی مالی بے قاعدگیوں کا انکشاف دو سال قبل آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں کیا گیا تھا تاہم سابق حکومت اور موجودہ حکومت کی جانب سے اب تک اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔

بتایا گیا ہے کہ این ٹی ایس سے تقریباً تمام حکومتی ادارے مستفید ہو رہے ہیں اور ہر سال یہاں سے ہزاروں لاکھوں افراد اس سروس کے تحت ٹیسٹ دیتے ہیں۔

ہم نیوز کے نمائندہ خصوصی ریاض الحق کے مطابق این ٹی ایس کا ادارہ 2002 میں قائم کیا گیا جس کا 2016 میں پہلی بار آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے  آڈٹ کیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس ایک نجی ادارہ ہے، جب قومی اسمبلی میں اس کے حوالے سے سوال کیا گیا تو بتایا گیا کہ چونکہ یہ نجی ادارہ ہے تو ہم اس سے متعلق کوئی جواب نہیں دے سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ادارے میں اربوں روپے کی بےضابطگیاں پائی گئی ہیں، لوگوں کو پیسے دیے گئے ہیں جس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

ریاض الحق نے بتایا کہ آڈٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ شروعات میں این ٹی ایس کو بنانے کا مقصد جامعہ کامسیٹس میں داخلہ لینے کی خاطر ٹیسٹنگ سروس مہیا کرنا تھا، بعد ازاں اس نے لاکھوں بچوں اور اداروں کے ٹیسٹ لینا شروع کر دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں وزارت کے ایک افسر نے اعلیٰ حکام سے این ٹی ایس کے حوالے سے پوچھا ہے تاہم انہیں کوئی جواب نہیں ملا ۔

انہوں  نے بتایا کہ این ٹی ایس کے معاملے میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری کو بھی اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آڈٹ رپورٹ میں جن کرداروں کے نام لئے گئے ہیں ان میں سے کئی اب بھی کامسیٹس یونیورسٹی میں کام کر رہے ہیں۔

 


متعلقہ خبریں