احتساب کی آڑ میں صحافیوں کو نشانہ نہ بنایا جائے، حامد میر


اسلام آباد: سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ صحافیوں کا احتساب ہونا چاہے اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن صحافیوں کو نشانہ نہ بنایا جائے۔

ہم نیوز کے پروگرام بریکنگ پوائنٹ ودھ مالک میں میزبان محمد مالک کے ساتھ بات کرتے ہوئے سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کی بات کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ملک میں سب سے زیادہ نشانہ میڈیا کو بنایا جاتا ہے اور میں جب سے صحافت میں آیا ہوں تو میڈیا ملازمین کو مار کھاتے ہی دیکھا ہے۔

انہوں ںے کہا کہ مجھ سمیت کچھ صافیوں پر ملک ریاض سے پلاٹ لینے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس کے خلاف میں دیگر صحافیوں کے ہمراہ سپریم کورٹ گیا تھا جہاں ثابت ہوا یہ جھوٹ ہے۔ ہم احتساب کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس کی آڑ میں میڈیا کو نقصان پہنچانے کی سازش کی جا رہی ہے۔

سینئر صحافی نے کہا کہ میڈیا کورٹس پر نواز شریف نے 1992 کو تجویز دی تھی کہ اس کو بنایا جائے اور اب اسی پرانے منصوبہ کو سامنے لایا جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے کسی طور بھی پیمرا کا ہاتھ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ تو چاہ رہے ہیں کہ زیر التوا مقدمات کو جلد نمٹایا جائے۔

حامد میر نے کہا کہ 2015 میں جب عمران خان نے مطالبہ کیا کہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے جس کا سپریم کورٹ نے کمیشن بھی بنایا تھا اور میں نے سپریم کورٹ میں ثبوت بھی جمع کرائے تھے جس پر عمران خان نے مجھے پی ٹی آئی کی جانب سے پیش ہونے کی آفر بھی کی تھی۔

انہوں ںے کہا کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا رویہ میڈیا کے ساتھ ٹھیک نہیں ہے اور ان کی وجہ سے ہی پاکستان تحریک انصاف اور میڈیا کے درمیان تعلقات خراب ہوئے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار شاہین صہبائی نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے میڈیا کا بھی احتساب ہو اور ہم بھی اس کے حامی ہے۔ عمران خان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس کی آڑ میں آزادی صحافت پر حملہ نہیں ہو گا اور ہم بھی چاہتے ہیں دو نمبر طریقہ سے مال بنانے والے صحافی سامنے آنے چاہییں۔

شاہین صہبائی نے کہا کہ میڈیا کے ملازمین تو ہر وقت عتاب کا شکار رہتے ہیں لیکن میڈیا مالکان کا رویہ انتہائی خراب ہوتا ہے جنہیں اپنے کاروبار کی فکر ہوتی ہے۔ ہمیں اپنا احتساب خود کرنا چاہیے تھا جو ہم نے نہیں کیا تو اب یہ کام کسی کو تو کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا مالکان سے حساب لیا جائے کہ مال کہاں سے آ رہا ہے، یہ آزادی صحافت کا مسئلہ نہیں بنے گا اور جہاں تک میڈیا ملازمین کا معاملہ ہے تو وہ چاہتے ہیں کہ احتساب ہونا چاہیے۔

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ میڈیا کورٹس کی ابھی تک کوئی تجویز کابینہ میں نہیں آئی ہے اور میرا نہیں خیال کہ اس پر کوئی بات ہو سکتی ہو۔

انہوں ںے کہا کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے بیان کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ میں میڈیا پر پابندیوں کا حامی نہیں ہوں۔ حکومت وقت میں کچھ لوگ ہوتے ہیں جو حادثاتی طور پر آگے نکل جاتے ہیں لیکن انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ میرا وزیر اعظم کے ساتھ بہت قریبی تعلق ہے اور انہیں میں بہت قریب سے جانتا ہوں وہ کبھی بھی میڈیا پر پابندی کی بات نہیں کریں گے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں بھی صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا اور آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم بنیادی چیزیں کرنے کو تو تیار نہیں ہیں لیکن احتساب کی بات ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم تو چاہتے ہیں سب کا احتساب ہو لیکن اگر میڈیا ملازمین کی تنخواہیں رکتی ہیں، اخبار کی سرکولیشن رکتی ہے اور ٹی وی چینلز بند ہوتے ہیں تو یہ احتساب نہیں بلکہ انتقام تصور کیا جائے گا۔

سینئر تجزیہ کار اور پروگرام کے میزبان محمد مالک نے کہا کہ صحافی ایک وقت میں دو لڑائیاں لڑ رہا ہوتا ہے ایک اس دنیا کے ساتھ اور دوسرا اپنے ادارے کی انتظامیہ سے لیکن کوئی اس کو پوچھنے والا نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم میڈیا کے احتساب کی حمایت کرتے ہیں لیکن اس کی آڑ میں کسی کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ شفاف احتساب ہو گا تو کوئی صحافی اختلاف نہیں کرے گا۔

محمد مالک نے کہا کہ آج ملک میں جو اتنی آگاہی پیدا ہوئی ہے اس کی وجہ میڈیا ہی ہے۔ آذادی صحافت صرف جمہوریت کے لیے نہیں بلکہ ہماری اپنی ذاتی آزادی کے لیے بھی ضروری ہے۔

دوسری جانب ماہر بین الاقوامی امور ڈاکٹر عادل نجم نے پاک افغان سرحد پر ہونے والے حملہ اور فوجی اہلکاروں کی شہادتوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کا حملہ انتہائی افسوسناک ہے اور ضروری نہیں کہ یہ طالبان کی جانب سے حملہ کیا گیا ہو۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکہ کو واضح طور پر کہہ دے ہم نے طالبان سے مذاکرات کا ٹھیکہ نہیں لیا اور پاکستان کو پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن وہ نکل نہیں پا رہا اور اس معاملے میں پاکستان متاثر ہو رہا ہے۔ اب یہ معاملے رکنے والا نہیں لگ رہا ایسے واقعات دوبارہ بھی ہو سکتے ہیں۔

سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ میں پاک افغان سرحد کے قریبی علاقے میں گیا جہاں کے لوگوں کا کہنا تھا کہ دن کو تو امن ہوتا ہے لیکن رات میں سرحد پار سے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔

حامد میر نے کہا کہ سرحد پار سے حملہ کرنے والے طالبان کو افغان سیکیورٹی تعاون کرتی ہے اور حالیہ حملے سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ پاکستان اور امریکہ کی کامیاب ملاقات کا اثر ہو سکتا ہے۔

حامد میر نے انکشاف کیا کہ پاک افغان سرحد پر پاک فوج پر ہونے والے حملے میں افغان صدر اشرف غنی اور افغان سیکیورٹی فورسز ملوث ہیں جو امن مذاکرات نہیں چاہتے جو ان کے لیے نقصان دہ ہے۔

انہوں ںے کہا کہ امریکہ کے پاس یہ ثبوت ہیں کہ افغان سیکیورٹی فورسز طالبان کے ساتھ مل کر حالات خراب کر رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں