کراچی کے امراء میں شیر پالنے کا بڑھتا ہوا رجحان

کراچی میں ایک شخص اپنے پالتو شیر کو نہلا رہا ہے


کراچی: مہنگی گاڑی کی نمائش، دولت مند بیوی کا چرچا یا مشہور شخصیات کی خودنمائی ماضی کا قصہ بنتا جا رہا ہے، اب کراچی کی نئی اشرافیہ میں شیر پالنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت کراچی کے اُمراء اور دولت مند گھرانوں میں لگ بھگ تین سو پالتو شیر موجود ہیں جنہیں انہوں نے اپنے پرائیوٹ فارم ہاوسز اور وِِلاز میں پالا ہوا ہے، ان میں سے اکثر افراد کے پاس قانونی اجازت نامے اور لائسنس موجود ہیں۔

پالتو شیر پالنے کا نیا رجحان کسی زمانے میں لاہور کے امیر لوگوں کا خاصہ ہوا کرتا تھا، اب یہ کراچی میں بھی پروان چڑھنے لگا ہے، یہاں کے اُمراء اپنی دولت کی نمائنش پالتو شیروں کی دیکھ بھال اور نمودونمائش کے ذریعے کرتے ہیں، یہ طبقہ اس حوالے سے بسا اوقات سوشل میڈیا کو بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا۔

کراچی کی ایک امیر شخصیت نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر برطانوی جریدے ٹیلیگراف سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی شہر میں بے شمار نجی فارم ہاؤسز اور وِلاز میں لوگوں نے شیر پالے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے مالدار گھرانوں میں شیر بطور پالتو جانور تیزی سے دیگر پالتو جانوروں کی جگہ لے رہا ہے۔

کراچی میں مالک اپنے پالتو شیر کے ساتھ سفر کررہا ہے

ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر پالتو شیروں کی نمائش اور ان سے جڑی خودنمائی کے رجحانات میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

کراچی کی ایک اور کاروباری شخصیت کا کہنا تھا کہ مالکان کی مصروفیات کی وجہ سے اکثر شیروں کی دیکھ بھال صحیح طریقے سے نہیں ہو پا رہی اوروہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ایک اور کاروباری شخصیت نے بتایا کہ شیر کا بچہ پندرہ لاکھ روپے تک مل جاتا ہے تاہم بڑھتی ہوئی مانگ کے سبب اس کی قیمت میں  دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستانی قوانین کے مطابق عام شہری دیگر ممالک سے جنگلی جانور بشمول شیر منگوا سکتا ہے تاہم ان کی دیکھ بھال کے حوالے سے ملکی قوانین پر بالکل عمل درآمد نہں ہورہا جس کی وجہ سے بہت سے پالتو شیر کراچی کے نجی فارم ہاوسز میں نظرانداز ہو رہے ہیں۔

کراچی میں مالک اپنے پالتو شیر کے ساتھ

تحفظ جنگلی حیات کے لیے متحرک ڈاکٹر ڈریپر کا کہنا ہے کہ شیروں کی صحیح دیکھ بھال نہ ہونے کی صورت میں وہ جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور بسا اوقات مالکان پر حملہ بھی کر دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پالتو شیروں کے ساتھ غیر مناسب رویہ ختم کرنے لے لیے حکام متعلقہ قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔

ڈاکٹر ریپر کا کہنا ہے کہ شیر، چیتا، تیندوا وغیرہ کے لیے بڑے اور وسیع پنجرے اور کھلی جگہ درکار ہوتی ہے جس کے بغیر ان کو پالتو جانور کے طور پر رکھنا ان کے ساتھ سراسر زیادتی اور جانوروں کے تحفظ کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس روش کو روکنے کیلیے متعلقہ حکام قوانین پر عمل درامد کو یقینی بنایئں۔

انہوں نے مزید کہا کہ شیروں وغیرہ کی گھروں میں صحیح دیکھ بھال ہو تو وہ 20 سے 25 سال  تک جی سکتے ہیں۔


متعلقہ خبریں