’پاکستان کا معدنی شعبہ 1923 کے ایکٹ کے تحت چل رہا ہے‘


اسلام آباد: آج سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم میں انکشاف کیا گیاہے کہ پاکستان میں معدنی شعبہ 1923کے ایکٹ کے تحت چلایا جارہاہے۔ 

سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا۔ بلوچستان میں کوئلے سمیت دیگر کانوں میں حادثات کا معاملہ زیر غورآیا۔ اراکین کمیٹی نے کوئلے کی کانوں میں بڑھتے ہوئے حادثات اور حفاظتی اقدامات پر عدم اعتماد کا اظہارکردیا۔

سیکرٹری مائننگ بلوچستان نے  کمیٹی کو کان کنی کے دوران پیش آنے والے حادثات پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ سال 21 حادثات ہوئے جن میں 66 افراد جاں بحق ہو گئے،رواں برس اب تک 39 حادثات میں 53 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔

کمیٹی میں انکشاف کیا گیاکہ پاکستان میں معدنی شعبہ 1923 کے ایکٹ کے تحت چل رہا ہے۔اس پر سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ سو سال پہلے کہاں تھی اب دنیا کہاں ہے، اس قانون میں تبدیلی ہونی چاہیے۔

سینیٹر میر کبیر محمد نے کہا کہ بلوچستان میں کان کنی کا شعبہ بوسیدہ ہوچکا ہے، کانوں کے مالکان بتائیں کیسے مخلوق خدا کو بچا سکتے ہیں؟

سینیٹر تاج محمد نے کہا کہ یہاِں پر غیر ہنرمند لوگ کام کرتے ہیں، لوگوں کی  زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔

پٹرولیم  کے کمیٹی اراکین نے کہا کہ بلوچستان میں کان کنی میں بار بار حادثات ہو رہے ہیں،کان کنی میں تربیتی معیار کی کمی  ہے، ہمارے ماہرین کو باہر تربیت کیلیے بھیجا جائے۔

مائننگ اونرز ایسویسی ایشن کے نمائندے نے کمیٹی اجلاس میں بتایا کہ مرنے والوں کے ورثا کو 7 لاکھ روپے فی کس امداد دی جاتی ہے،امدادی رقوم کی ادائیگی 5 سال سے تاخیر کا شکار ہے۔

لیبر فیڈریشن بلوچستان کے حکام نے کمیٹی اجلاس میں بتایا کہ اس سال اب تک 94 لوگ مائننگ کے دوران جاں بحق ہوچکے ہیں، کان کن سوشل سیکیورٹی میں بھی رجسرڈ نہیں کیا جاتا۔

پیپلزپارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہا کہ جب تک مائننگ ایکٹ 1923 میں ترمیم نہیں کی جائے گی یہ صورتحال ایسے ہی رہے گی۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی نےاستفسار کیا کہ کوئلے کی کانوں میں کتنے ورکرز کام کررہے ہیں اور ان میں سے کتنے رجسٹرڈ ہیں؟ دس سال میں کوئلے کی کان میں کتنے حادثات ہوئے اور حفاظتی سازوسامان کی کیا صورتحال ہے؟

بلوچستان فیڈریشن آف ٹریڈ یونینزکے نمائندے نے  کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ گزشتہ سال حادثات میں ایک سو چونسٹھ کان کن مزدور ہلاک ہوئے، رواں سال ابھی تک چورانوے مزدور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ سب سے زیادہ کان کن مزدور بلوچستان میں مرتے ہیں جس کی بڑی وجہ حفاظتی اقدامات کا  نہ ہونا ہے۔ کوئلے کی کانوں میں گیس کے اخراج کا سسٹم  ہی نہیں ہے۔ کروڑوں روپے کمانے والے مالکان ایگزاسٹ فین نہیں لگاتے۔

اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ بلوچستان کے مائننگ کے مزدور ڈیڑھ لاکھ ہیں جن میں سے ستر ہزار رجسٹرڈہیں، آئی او بی آئی میں صرف چھ ہزار مزدور رجسٹرڈ ہیں۔ کمیٹی نے مائننگ کے شعبے میں پانچ سال کی رپورٹ طلب کر لی۔

بھارت کو سستا نمک فراہم کرنے کے معاہدے کا معاملہ بھی کمیٹی اجلاس میں زیر بحث آیا۔حکام  نے بتایا کہ بھارت کے ساتھ سستا نمک فراہم کرنے کا کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہے۔ بھارت نے پلوامہ حملے کے بعد پاکستانی نمک پر ڈیوٹی بڑھا دی تھی۔ بھارت کو اب نمک کی برآمد کم ہو گئی ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ برانڈ مارکیٹنگ نہ ہونا ہے۔ بھارت ہم سے نمک خرید کر کے اچھی مارکیٹنگ کے ذریعے یورپ میں یہی نمک بیچ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: ڈیگاری کان حادثہ: جاں بحق ہونے والے کان کنوں کی تعداد 9 ہوگئی


متعلقہ خبریں