سپریم کورٹ میں صرف 41کرمنل اپیلیں زیر التواء ہیں، چیف جسٹس

جسٹس آصف سعید کھوسہ نےبطور چیف جسٹس پاکستان حلف اٹھا لیا | urduhumnews.wpengine.com

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ کچھ سال پہلے 13 سے 14 ہزار اپیلیں سپریم کورٹ میں زیر التواء تھیں لیکن اس وقت صرف 41 ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لاہور رجسٹری میں 94 اپیلیں باقی ہیں جب کہ کوئٹہ میں ایک بھی اپیل زیر التواء نہیں ہے۔ 

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے یہ انکشاف آج اسلام آباد میں فوری اور سستے انصاف  سے متعلق ایک تقریب سے خطاب کے  دوران کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ میں انیس سو اٹھانوے میں جب انہوں نے جج کا منصب سنبھالا تب انکےساتھ آٹھ ججز ہائی کورٹ میں آئے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بہت جلد انہیں جنون گروپ ججز کہا جانے لگا کیوں کہ ہمیں کام کا جنون تھا اور میں آج بھی پہلے دن سے اپنی عدالت میں لگے تمام کیسز کا فیصلہ کر کے اٹھتا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ان کی عدالت میں کیسز کارروائی کے لئے نہیں فیصلے کے لئے لگتے ہیں اور میں کازلسٹ لوگوں کی امانت سمجھتا ہوں۔

آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ انہیں انصاف کرنے میں جوسکون ملتا ہےاس ک انعم البدل نہیں اور قرآن میں بھی ہے کہ جب کوئی فیصلہ کروتوانصاف کیساتھ کرو۔

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسندفرماتا ہے اور بہترانصاف نہ کرنے والوں کوعبرت کا نشان بنا دیتا ہے۔

چیف جسٹس نے ایک موقع پر ازراہ تفنن یہ بھی کہا کہ جب وہ  جج بنے تو وکیلوں کی فیس بڑھ گئی تو انہوں نے سوچا واپس وکیل بن جائیں۔

انہوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی میں جج صاحبان پربھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کیوں کہ جج کاکام دلائل سن کرفیصلہ کرنا ہے کیس ملتوی کرنا نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا ہمیں عدالت میں فیصلہ کرنا چاہئیے صرف دن نہیں گزارنا چاہئیے، میں نے کئی بار وکلا کو کہا کہ کیس ملتوی نہیں کرونگا۔ ہمیشہ کہا کہ التوا دو صورتوں میں ملے گا یا جج صاحب رحلت فرما جائیں یا وکیل فوت ہوجائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ججز کو لیکچر میں بتایا کہ کمرہ عدالت میں بیٹھے تمام لوگ دلائل سنتے ہیں،جج نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے،اگر جج فیصلہ نہیں کرتا تو اس میں اور کمرہ میں موجود باقی لوگوں میں کوئی فرق نہیں۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ زیر التوا اپیلیں بھی بہت جلد نمٹا دی جائیں گی،اللہ نے ہمارے کندھوں پر بڑی ذمہ داری ڈالی ہے،ہمیں کسی بھی دباؤ کا شکار نہیں ہونا چاہئیے۔

انہوں نے  کہا کہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا آپ سے محبت کرے تو پھر کس چیز کا ڈر ہے؟یہ معمولی منصب نہیں ہے، آپ صرف انصاف کرنے بیٹھ جائیں انصاف وہ خود کروائے گا، اگر آپ ٹھیک ہوجائیں تو نہ آگے کی فکر نہ پیچھے کی فکر۔

انہوں نے  کہا کہ آپ کو اپنے 22 سالہ تجربے پر بتارہا ہوں بڑے بڑے مشکل مقدمات آئے اور جان کا خطرہ بھی تھا، مذہبی، سیاسی اور قانونی معاملات تھے لیکن اللہ نے حفاظت بھی کی اور عزت بھی دی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ صحیح راستے پر چلیں تو آپ کو کسی شخص کا کسی چیز کا کوئی خوف ہی نہیں رہے گا، ٹکڑے ٹکڑے کر کے کیس چلانا مناسب عمل نہیں ہے، دلائل سنیں اور فیصلہ کر دیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین کو بلا کر ان سے کیس سے متعلق ایک معیاد مقرر کرلیں ۔ عدالت پارٹی کے پیچھے نہیں بھاگے گی، عدالت ایک سہولت دیگی، اگر فریقین اس سہولت سے مستفید نہ ہوئے تو وہ گلہ نہیں کرسکیں گے۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ کچھ عرصے سے یہ چل رہا تھا کہ بڑے وکلاء بڑی عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے تھے،اس وجہ سے مقدمات میں التوا آتا تھا۔ ہم نے اصولی فیصلہ کیا کہ جس وکیل کا کیس ٹرائل کورٹ میں ہوگا اس کو سرٹیفکیٹ دیا جائے گا۔ اس وکیل کا کیس ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں ملتوی ہوگا لیکن ٹرائل کورٹ میں کیس چلے گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ ہمارا اصولی فیصلہ ہے،بعض اوقات مسائل کا حل بہت چھوٹا ہوتا ہے،ہم اس پر کمیشن بناتے ہیں مشکل حل ڈھونڈنے ہیں اس پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں،اس پر کوئی کمیشن نہیں بنا کوئی قانون نہیں بدلا لاکھوں روپے خرچ نہیں ہوئے۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے دوران تقریر حاضرین کو آگاہ کیا کہ قتل اور منشیات کے10600 ٹرائل ہوگئے ہیں 96 دنوں اور پتہ ہی نہیں چلا ،یہ حیران کن نتائج ہیں مجھے خود بھی یقین نہیں آتا۔ہمیں بہترین نتائج ملے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو بھی نظام لائیں اس کی سپورٹ اوپر سے ہونی چاہیے،چھوٹے اقدامات کرنے چاہئیں جن کا سسٹم پر بڑا اثر ہو، ریاست کے مقدمات میں ریاست کی ذمہ داری ہے کیس کو چلانا،مدعی گواہ لاتا تھا اور اکثر گواہان نہیں آتے تھے۔ ریاست کے مقدمات میں مدعی کو بتانا مقصود ہوتا ہے۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ ہم نے آئی جیز کو بلا کر کہا کہ اپنا کام کریں،ہر مقدمے سے پہلے تفتیشی افسر اپنے گواہان کو لے کر عدالت کے باہر بیٹھا ہوگا، تمام گواہان پیش ہونے لگے ہیں اب کوئی گواہ غیر حاضر نہیں ہوتا۔ ڈاکٹرز کے حوالے سے کہا کہ ان کو بھی عدالت کے روبرو پیش کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا اگر ڈاکٹر مصروف ہو تو ان کو کہا کہ سکائپ پر بیان دے دیں،چھوٹے چھوٹے اقدامات کیے ان سے کمال ہوگیاہے۔ یہ کہا گیا کہ فوجداری مقدمات پر توجہ دے رہے ہیں۔ ہم نے دیوانی مقدمات کے لیے عدالتیں بنائیں، 14 دنوں میں 6 ہزار مقدمات کا فیصلہ کیا ہے۔

چیف  جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ کیا ہوا ہے، یہ کچھ تو ہوا ہے، آپ بھی وہی ہیں ،نظام بھی وہی ہے۔ اس نظام کے حوالے سے ابھی تک ایک شکایت بھی سامنے نہیں آئی۔ جو کچھ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ آپ سب نے اپنے آپ کو تبدیل کیا ہے۔ یہ اس لیے کیا ہے کیوں کہ ضرورت محسوس کی کہ یہ نظام اب نہیں چل سکتا۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ مجموعی طور پر1.7 ملین مقدمات زیر التواء ہیں،سپریم کورٹ میں جنوری میں 42 ہزار 500 کے قریب کیسز تھے اب تقریباً 40 ہزار 300 زیر التواء ہیں۔ جو ہمیں ہر وقت شکوہ ملتا تھا شکایت ملتی تھی اس میں اب کچھ کمی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگ آپ کو دیکھ رہے ہیں آپ کا کام دیکھ رہے ہیں، مجسٹریٹ پہلے دو کام کرتے تھےہم نے چھوٹا سا ٹوٹکا کیا ان دونوں کو الگ کر دیا ،ٹائر سے ہوا نکال دی، ہم نے دونوں مجسٹریٹس کو الگ کردیا۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم نے جوڈیشل اکیڈمی میں میس کا افتتاح کیا ہے،اس کے علاوہ اور کوئی پیغام نہیں ایک ہی پیغام ہے،کام کریں تو جذبے سے کام کریں،ایک بوڑھی عورت جب آپ کی عدالت سے انصاف لے کر نکلے گی دعا دے گی اور بیڑے پار ہوجائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کی طرح پولیس کی آزادی بھی ضروری ہے، چیف جسٹس


متعلقہ خبریں