’ دو ملزمان کی پلی بارگین سے زرداری کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے‘



اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جعلی اکاونٹس کیس میں دو ملزمان کی جانب سے دو ارب 12 کروڑ روپے کی پہلی پلی بارگین سے آصف زرداری کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔

پروگرام ویوز میکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار عامرضیاء کا کہنا تھا کہ احتساب کے نظام پر سوالات کے باوجود دو ارب روپے سے زائد قومی خزانے میں آنا بڑی کامیابی ہے۔ آصف علی زرداری کے لیے یہ لمحہ فکریہ اس لیے ہے کہ ان کا کیس بھی اسی سے ملتا جلتا ہے۔ اس قدم سے پیپلزپارٹی کی قیادت پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ آصف زرداری کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے لیکن قومی خزانے کو فائدہ ہوا ہے۔

تجزیہ کار رضا رومی نے کہا کہ کوئی بھی احتساب کے عمل کے خلاف نہیں ہے، اگر یہ عمل شفاف بنادیا جائے تو نظام کو مزید فائدہ ہوگا۔ آصف زرداری پہلے سے ہی مشکل میں ہیں جہاں سے ان کا کسی سیاسی انقلاب یا ڈیل کے بغیرباہر نکلنا مشکل ہے۔

سینیئر تجزیہ کار ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ آصف زرداری کی مشکلات پہلے سے ہیں، وہ اتنے مقدمات کا سامنا کرچکے ہیں کہ وہ ان سے مزید پریشان نہیں ہوتے ہیں۔

تجزیہ کار ابراہیم راجہ نے کہا کہ آصف زرداری پر سنگین الزامات ہیں، ان کے بارے میں عوامی تاثر بھی اچھا نہیں ہے لیکن وہ اس نظام سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں جب حکومت اس احتساب کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی ہے۔

وزیراعظم کی جانب سے ہر ماہ وزراء کی کارکردگی کے جائزے سے متعلق سوال کے جواب میں ناصر بیگ چغتائی نے کہا کہ یہ اچھا کام ہے کہ اس سے ہر وزارت کی کارکردگی جانچنے کا موقع ملے گا لیکن اس کی بنیاد یہ ہونی چاہیے کہ عوام کو کیا ریلیف ملا ہے؟

امجد شعیب نے کہا کہ کارکردگی کا جائزہ لینا وزیراعظم کا اختیار ہے، اگر کسی کو ذمہ داری ملی ہے تو اس کا احتساب بھی ہونا چاہیے۔

رضا رومی نے کہا کہ وزیراعظم کا یہ دیکھنے کا عمل اچھا ہے کہ تحریک انصاف کے منشور کے مطابق کتنا کام ہورہا ہے۔ کابینہ کا احتساب پارلیمنٹ بھی کرتی ہے اگر وزیراعظم بھی کریں گے تو کارکردگی میں مزید بہتری آئے گی۔

عامرضیاء نے کہا کہ یہ مثبت اعلان ہے کہ اسدعمر کا کارکردگی نہ دکھانے پر وزرات خزانہ سے ہٹایا گیا ہے، نوازشریف کے دور میں تو کابینہ کے اجلاس بھی نہیں ہوتے تھے اب اگر کابینہ نے خود ہی احتساب کا فیصلہ کیا ہے تو اچھا ہے۔

ابراہیم راجہ نے کہا کہ جب تک پارٹی مفادات سے ہٹ کر نہیں سوچا جائے گا کارکردگی نہیں ہوگی، وزراء کی تبدیلی سے بھی کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے کہ ٹیکنوکریٹس حکومت چلا رہے ہیں۔

کراچی میں بارش سے مشکلات سے متعلق سوال کے جواب میں ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ کراچی کے عوام مشکل میں ہیں اور یہ صوبائی اور بدلاتی اداروں کی ناکامی ہے۔ عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ مسائل سے آنکھیں بند رکھی گئی ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات سیاسی قوت کے پاس آجائیں۔

ابراہیم راجہ نے کہا کہ کراچی میں ایک بوسیدہ نظام ہے جسے تحریک انصاف نے اب تک درست کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ جب تک اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں ہوں گے تو کراچی کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

رضا رومی نے کہا کہ کراچی میں بلدیاتی کا موثر نظام موجود نہیں ہے۔ وفاق، صوبائی اور مقامی اختیارات کے حوالے سے مسائل موجود ہیں اور ان سب کا حل بہترین بلدیاتی نظام ہے۔

امجد شعیب نے کہا کہ ایم کیو ایم نے اپنے دور میں کچھ بہتر نظام لایا تھا لیکن پیپلزپارٹی نے آکر اسے بلدیات کے ماتحت کردیا ہے۔ اب بھی پیپلزپارٹی نے مسائل کے حل کے لیے ضروری وسائل فراہم نہیں کیے ہیں۔

چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق سوال کے جواب میں ناصربیگ چغتائی نے کہا کہ اپوزیشن اب زیادہ پراعتماد نظر آرہی ہے، متوقع نتیجہ یہی ہے کہ صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ نہیں رہیں گے۔

امجد شعیب نے کہا کہ صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ نہیں رہیں گی، زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن کے چند ووٹ کم ہوجائیں۔

عامرضیاء کا کہنا تھا کہ اگر نتجہ غیرمتوقع ہوا تو اپوزیشن کو اخلاقی برتری حاصل ہوجائے گی، حکومت کو چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی سے کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہوگا۔

ابراہیم راجہ نے کہا کہ حکومت اور صادق سنجرانی صاحب اسی معجزے کا انتظار کررہے ہیں جس سے وہ چیئرمین بنے تھے، اب اس کا وقت بھی گزر گیا ہے اور اگر کوئی معجزہ ہوا تو پورے سیاسی نظام پر سوالات اٹھ جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے: نیب متحرک ہو گیا، بدعنوان عناصر سے اربوں روپے وصول


متعلقہ خبریں