مریم نواز کو پارٹی عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

ظاہر ہوتا ہے کہ سلیکٹڈ حکومت کتنی خوفزدہ ہے ؟ مریم نواز

فوٹو: فائل


اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے مریم نواز کو پارٹی عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو 27اگست کو سنایا جائیگا۔ 

چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے بنچ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت  کی ۔

مسلم لیگ ن کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ جیل میں موجود شخص بھی پارٹی عہدہ رکھ سکتا ہے،نوازشریف بلواسطہ طور پر جیل سے پارٹی امور چلا رہے ہیں، نوازشریف نے جسے چیئرمین سینیٹ نامزد کیا اسی ہر سب کا اتفاق ہوا ہے۔ یہ جتنابھی زور لگا لیں فیصلہ سازی کا حق نہیں چھین سکتے۔

ن لیگ کے وکیل نے مزید کہا کہ کسی کے بنیادی حقوق کو آلب نہیں کیا جا سکتا،پارٹی سربراہ کے پاس طاقت ہوتی ہے ۔ پارٹی سربراہ ارکان اسمبلی کے ٹکٹ کا فیصلہ کرتا ہے، مریم نواز کے پاس پارٹی سربراہ والے اختیارات نہیں ہیں۔

مریم نواز کے وکیل بیرسٹر ظفراللہ  نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل میں کہا کہ ن لیگ کے وکیل کے دلائل سے مکمل اتفاق کرتا ہوں،کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر ہی الیکشن کمیشن کارروائی کر سکتا ہے۔ ایسا کوئی قانون نہیں جس کے تحت پارٹی نائب صدر کا عہدہ چیلنج ہو۔

دوران سماعت سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر دلچسپ تبصرہ دیکھنے میں آیا۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ن لیگ نے تاحال مریم کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن نہیں جمع کرایا،ن لیگ کے ٹوئٹر اکائونٹ پر تعیناتی سے آگاہ کیا گیا۔
اس پر چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ یہ ٹویٹر آخر ہوتا کیا ہے؟
پی ٹی آئی رہنماؤں کے وکیل نے کہا کہ ٹوئٹر سوشل میڈیاویب سائٹ  ہے جس پر لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ کیا ٹویٹر قابل قبول شواہد ہے؟ سوشل میڈیا کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

پی ٹی آئی رہنماؤں کے وکیل حسن مان نے کہا کہ اب تو سوشل میڈیا پر طلاق بھی ہو جاتی ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ وٹس ایپ اور ایس ایم ایس تو قابل قبول شہادت ہے ،ٹوئٹر کے حوالے سے باضابطہ قانون ہے تو دکھائیں۔

وکیل حسن مان نے کہا کہ مریم نواز نیب عدالت سے سزا یافتہ ہیں ۔تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز کی سزا معطل کر دی ہے۔

اس پر ممبر الیکشن کمیشن نے ریمارکس دیے کہ مریم نواز کی سزا پر عملدرآمد معطل ہوا سزا معطل نہیں ہوئی۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ سزا معطل کرنے سے بہتر ہے عدالتیں بری کر دیا کریں۔ یہ کونسا قانون ہے کہ اپیل میں سزا ہی معطل کر دی جائے۔

ممبر الیکشن کمیشن کے پی ارشاد قیصر نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی سزا پر عملدرآمد معطل ہو سکتا سزا معطل نہیں ہو سکتی۔

ممبر الیکشن کمیشن پنجاب الطاف قریشی نے کہا کہ ہائی کورٹ میں اپیل ابھی زیر التواء ہے۔ زیرالتواء عدالتی معاملے پر ابھی فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟ ہائی کورٹ نے مریم کو بری کر دیا تو آپکا کیس ختم ہوجائے گا۔

پی ٹی آئی رہنماؤں کے وکیل حسن مان نے کہا کہ الیکشن اور سزا معطلی کے حوالے سے سپریم کورٹ اصول وضع کر چکی ہے۔

ن لیگ کے وکیل جہانگیر جدون نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پارٹی سربراہ کی حد تک ہے،سزا تو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان ہونا بھی ہے، کیا جس کا چالان ہوا ہو وہ کسی پارٹی کا ممبر نہیں بن سکتا؟سزا یافتہ شخص اگر پارٹی کارکن بن سکتا ہے تو عہدہ بھی رکھ سکتا ہے۔

جہانگیر جدون نے کہا کہ مریم نواز آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل نہیں ہوئیں،سترہ میں سے 16 نائب صدور کی نامزدگی چیلنج نہیں کی گئی۔

ممبر پنجاب الطاف قریشی نے ن لیگ کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپکے باقی نائب صدور بھی سزا یافتہ ہیں؟ صرف سزا یافتہ نائب صدر کی نامزدگی چیلنج کی گئی ہے۔

دوران سماعت چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے تو الیکشن کمیشن کو قانون کالعدم قراردینے کا اختیار بھی دیا ہے۔

اس پر مریم نواز کے وکیل نے دلیل دی کہ الیکشن کمیشن نااہلی کی درخواست پر سماعت کر سکتا ہے،کمیشن یہ نہ کہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا پابند ہے،کمیشن اپنے طور پر قانون کی تشریح کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

مریم نواز کے وکیل بیرسٹر ظفراللہ ، ن لیگ اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

یہ بھی پڑھیے: مریم نواز نے پارٹی عہدے کیخلاف کیس میں اپنا جواب جمع کرادیا


متعلقہ خبریں