فوج ہر مسئلے پر حکومت کے ساتھ ہے، شاہ محمود قریشی


اسلام آباد: وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہمارا موقف تھا کہ چیئرمین سینیٹ اچھا کام کر رہے ہیں لیکن ان پر سیاسی نزلہ گرایا گیا اور اپوزیشن نے عددی برتری کو مدنظر رکھتے صادق سنجرانی کو ٹارگٹ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ذہنی طور پر پارٹی موقف کو نہیں مانتے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ن لیگ کے کچھ سینیٹرز کو جانتے ہیں  جو اس تحریک کے حق میں نہیں تھے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تحریک عدام اعتماد کے پیچھَے سیاسی محرکات تھے اور اس کے لیے حکومت کو موردالزام نہ ٹھہرایا جائے اپوزیشن اپنے صفیں ٹٹولیں۔

فوج اور حکومت کے درمیان تعلقات کے سوال پر وزیرخارجہ نے کہا کہ اگر ہم نے مسائل حل کرنے ہیں تو پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک صفحے پر ہونا ہوگا اور ہم ایک ہو کر پاکستان کے لیے سوچ رہے ہیں۔

آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق حکومتی وزیر نے کہا کہ یہ وزیراعظم کا اختیار ہے لیکن فی الحال اس پر مشاورت نہیں ہو رہی ہے کیوں کہ ہنوز دلی دور است۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت میں آج تک پاکستان کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس میں فوج کو اعتماد میں نہ لیا گیا ہو، افواج پاکستان مملکت کے ساتھ وفادار ہیں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر ٹرمپ کی جانب سے اس بیان کی توقع نہیں تھی کیوں کہ ماضی میں امریکہ ثالثی کرنے سے انکار کرتا رہا ہے۔ شاہ محمودقریشی نے کہا کہ نریندر مودی نے بھی ٹرمپ کے بیان کی تردید نہیں کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے پاکستان کوئی کوتاہی کرنا نہیں چاہتا لیکن بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ اور کشمیر میں مزید فوجی بھیجنا ہمیں تشویش میں مبتلا کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت امریکہ کی اولین ترجیج افغانستان میں امن قائم کرنا ہے اور پاکستان کی کاوشوں سے اس کے مثبت اشارے بھی مل رہے ہیں، حکومت چاہتی ہے کہ طالبان کی وزیراعظم سے ملاقات جتنی جلدی ہو اتنا ہی بہتر ہوگا۔

شاہ محمودقریشی کا کہنا تھا کہ افغان مسئلہ حل کرنے کے لیے مختلف اسٹیک ہولڈرز قریب آ رہے ہیں اور امید ہے کہ جلد مسائل حل ہوں گے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان اور ایف اے ٹی ایف کے مقاصد ایک ہیں، دنیا قائل ہوگئی ہے کہ پاکستان کی حکومت دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کیخلاف اقدامات اٹھا رہی ہے۔

انہوں نے کہا امریکہ پاکستان کے ساتھ  برابری کی سطح پر وسیع تجارتی اور معاشی تعلقات چاہتا ہے لیکن ہمارے اداروں میں صلاحیت کم ہے اور حکومت ارادہ کرچکی ہے کہ اسے بہتر بنایا جائے گا۔

کولیشن اسپورٹ فنڈ کے سوال پر وزیرخارجہ نے کہا ہم ارادہ کر کے گئے تھے کہ یہ معاملہ نہیں اٹھائیں گے لیکن جیسے ہی تعلقات بہتر ہوں گے تمام مسائل کر لیے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ عافیہ صدیقی کو واپس لایا جائے لیکن امریکیوں کی قانونی مشکلات ہیں جیسے شکیل آفریدی کے معاملے پر پاکستان کے قانونی مسائل ہیں۔

وزیرخارجہ نے کہا وزیراعظم نے امریکی حکام سے بات کی ہے کہ آئیں بیٹھ کر قانونی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاک بھارت تعلقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے ہمسائے ملک کو مشورہ دیا کہ ہمارے درمیان بات چیت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، ہمیں امید تھی کہ الیکشن کے بعد مودی کا رویہ بدلے گا لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایران کیساتھ  کسی صورت حالات کشیدہ کرنا نہیں چاہتا کیوں کہ اس سے افغان امن عمل کو نقصان پہنچے گا۔

پاک سعودی تعلقات کے بارے میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم سعودی عرب  اور یو اے ای کے مشکور ہیں جو اس کڑے وقت میں وہ ہمارے ساتھ کھڑے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ بھی تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔


متعلقہ خبریں